اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کو صرف اس حد تک لیا جائے کہ ایک ناقص الفہم بندہ کی رائے ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر کسی کو لگے کہ یہ کام کی بات ہے تو یہ اس عظیم الخیال نابغے کی اپنی رائے ہوگی۔ اور کوئی سمجھے کہ یہ باتیں درست نہیں، تو ظاہر ہے اس کی وجہ میں لکھ چکا ہوں۔ اب شروع کرتے ہیں۔
جو طلبہ درجۂ ثالثہ یا اس سے اوپر کے درجات پڑھ چکے ہوں وہ طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ فن اوپر کے درجات میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر پڑھایا جاتا ہے تو وہ نحو کم اور نحوی فلسفہ زیادہ ہوتا ہے۔ (جیسے ثالثہ میں کافیہ اور رابعہ میں شرحِ جامی) اس لیے اوپر کے درجات کے طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
ایسے طلبہ کے لیے ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ چھٹیوں میں الگ سے کورس کرنے کے بجائے یہ کریں کہ:
(1) دوران تعلیم کسی بھی سال میں کسی استاذ سے یہ دونوں فن تھوڑا تھوڑا پڑھ لیں۔
(2) یا کسی ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرہ کرلیں۔
(3) یا صرف ونحو کا ایک ایک سبق پڑھ کر اس کے مطابق اجراء کرلیں (مدرس کے طلبہ ”اجراء“ کے اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں)
(4) یا ابتدائی درجات کے طلبہ کو بٹھاکر ان کو تکرار کروادیں تو صرف ونحو کی یہ کمی بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے اور چھٹیوں کو بہت حد تک دوسرے مفید کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔
اولی کے طلبہ کے لیے چھٹیوں میں صرف ونحو کورس کرنا ”غلطی“ اس لیے ہے کہ درجۂ اولیٰ پڑھنا ایک فل ٹائم جاب ہے۔ مسکراہٹ۔
صبح سے شام تک ضرب ضربا ضربوا کرنا، صیغوں کو پہچاننا، نحو کو سمجھنا، اجراء کرنا، ترکیبیں کرنا، اور پھر کئی دوسری کتابیں پڑھنا، وہ بھی پہلی مرتبہ بخدا ایک کارے دارد ہے۔ اور مکمل 24 گھنٹے مدرسہ میں صرف کیے بغیر اولیٰ پڑھنا ناممکن تو نہیں پر بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ اور سمجھیں کہ ایک طالب علم ایک سال مسلسل اس امتحان سے گذرتا ہے، اور اس کو چھٹیاں اس لیے دی گئیں کہ وہ تازہ دم ہوکر اگلے سال ثانیہ کے لیے تیار ہوجائے۔
اب جناب والا چھٹیاں تازم ہونے کے لیے نہیں گذار رہے بلکہ صرف ونحو کورس میں شریک ہوکر اپنے دماغ کو اسی جہدِ مسلسل میں مصروف رکھ رہے ہیں جس میں وہ ایک سال تک رہے، اور اگلے سال انہیں دوبارہ ان فنون کی مزید تفصیلات کو پڑھنا ہے اور اس کے علاوہ مزید فنون (مثلاً منطق اور تفسیر) بھی پڑھنے ہیں، تو بتائیے کیا وہ اگلے سال بہتر طور پر درجۂ ثانیہ شروع کرپائیں گے۔ اس لیے جو ساتھی درجۂ اولیٰ پڑھ چکے ہیں وہ چھٹیوں میں نیچے دی گئی کوئی مصروفیت اپنائیں کیونکہ اگلے سال انہیں دوبارہ یہ دونوں فنون پڑھنے ہوں گے، لہٰذا اگلے سال تھوڑی سی ہمت کرکے ان فنون پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں مزید تحریریں بھی شائع کی جائیں گی۔
براہ کرم اپنی رائے سے ضرور نوازیئے گا۔
آپ کا طالبعلم بھائی
طلبۂ مدارس کو چھٹیوں میں کیا کرنا چاہیے؟
پچھلی ایک پوسٹ میں ہم نے مختصراً عرض کی تھی کہ مدارس کے طلبہ چھٹیوں میں کیسی مصروفیات اپناتے ہیں۔ اس پوسٹ میں ہم یہ عرض کریں گے کہ مدارس کے طلبہ کو چھٹیوں میں کیا کرنا چاہیے۔صرف ونحو شارٹ کورس
مدارس کے طلبہ جانتے ہیں کہ صرف ونحو کی حیثیت علومِ دینیہ میں بہت اہمیت ہے۔ اس میں تھوڑی سی کمزوری اگلے تمام سالوں میں وبالِ جان بن سکتی ہے اور حصول علم میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس لیے وہ طلبہ جن کا اولیٰ اور/یا ثانیہ کا سال تعلیمی لحاظ سے اچھا نہیں گذرا، ان کی کچھ کمی صرف ونحو میں رہ جاتی ہے۔ اب ان کے پاس ایک راستہ بچتا ہے کہ چھٹیوں میں صرف ونحو شارٹ کورس کرلیں۔ اس لیے عموماً مدارس میں اس کورس کا انعقاد ہوتا ہے اور طلبہ جوق در جوق شریک ہوتے ہیں۔جو طلبہ درجۂ ثالثہ یا اس سے اوپر کے درجات پڑھ چکے ہوں وہ طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ فن اوپر کے درجات میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر پڑھایا جاتا ہے تو وہ نحو کم اور نحوی فلسفہ زیادہ ہوتا ہے۔ (جیسے ثالثہ میں کافیہ اور رابعہ میں شرحِ جامی) اس لیے اوپر کے درجات کے طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
ایسے طلبہ کے لیے ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ چھٹیوں میں الگ سے کورس کرنے کے بجائے یہ کریں کہ:
(1) دوران تعلیم کسی بھی سال میں کسی استاذ سے یہ دونوں فن تھوڑا تھوڑا پڑھ لیں۔
(2) یا کسی ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرہ کرلیں۔
(3) یا صرف ونحو کا ایک ایک سبق پڑھ کر اس کے مطابق اجراء کرلیں (مدرس کے طلبہ ”اجراء“ کے اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں)
(4) یا ابتدائی درجات کے طلبہ کو بٹھاکر ان کو تکرار کروادیں تو صرف ونحو کی یہ کمی بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے اور چھٹیوں کو بہت حد تک دوسرے مفید کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔
جو طلبہ درجۂ اولیٰ پڑھ چکے ان کو صرف ونحو کورس میں شریک ہونا چاہیے؟
اولیٰ کے طلبہ کو صرف ونحو شارٹ کورس میرے خیال میں بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اولیٰ پڑھنے والے طلبہ کو لگتا ہے کہ ان سے کچھ کوتا ہی ہوئی ہے، تو سمجھ لیں ان سے ایک غلطی ہوگئی۔ اب چھٹیوں کو دوبارہ صرف ونحو میں لگاکر وہ ایک اور غلطی کررہے ہیں۔اولی کے طلبہ کے لیے چھٹیوں میں صرف ونحو کورس کرنا ”غلطی“ اس لیے ہے کہ درجۂ اولیٰ پڑھنا ایک فل ٹائم جاب ہے۔ مسکراہٹ۔
صبح سے شام تک ضرب ضربا ضربوا کرنا، صیغوں کو پہچاننا، نحو کو سمجھنا، اجراء کرنا، ترکیبیں کرنا، اور پھر کئی دوسری کتابیں پڑھنا، وہ بھی پہلی مرتبہ بخدا ایک کارے دارد ہے۔ اور مکمل 24 گھنٹے مدرسہ میں صرف کیے بغیر اولیٰ پڑھنا ناممکن تو نہیں پر بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ اور سمجھیں کہ ایک طالب علم ایک سال مسلسل اس امتحان سے گذرتا ہے، اور اس کو چھٹیاں اس لیے دی گئیں کہ وہ تازہ دم ہوکر اگلے سال ثانیہ کے لیے تیار ہوجائے۔
اب جناب والا چھٹیاں تازم ہونے کے لیے نہیں گذار رہے بلکہ صرف ونحو کورس میں شریک ہوکر اپنے دماغ کو اسی جہدِ مسلسل میں مصروف رکھ رہے ہیں جس میں وہ ایک سال تک رہے، اور اگلے سال انہیں دوبارہ ان فنون کی مزید تفصیلات کو پڑھنا ہے اور اس کے علاوہ مزید فنون (مثلاً منطق اور تفسیر) بھی پڑھنے ہیں، تو بتائیے کیا وہ اگلے سال بہتر طور پر درجۂ ثانیہ شروع کرپائیں گے۔ اس لیے جو ساتھی درجۂ اولیٰ پڑھ چکے ہیں وہ چھٹیوں میں نیچے دی گئی کوئی مصروفیت اپنائیں کیونکہ اگلے سال انہیں دوبارہ یہ دونوں فنون پڑھنے ہوں گے، لہٰذا اگلے سال تھوڑی سی ہمت کرکے ان فنون پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں مزید تحریریں بھی شائع کی جائیں گی۔
براہ کرم اپنی رائے سے ضرور نوازیئے گا۔
آپ کا طالبعلم بھائی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ یہاں تحریر کیجیے۔