نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

طلبۂ مدارس کو چھٹیوں میں کیا کرنا چاہیے؟

اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کو صرف اس حد تک لیا جائے کہ ایک ناقص الفہم بندہ کی رائے ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر کسی کو لگے کہ یہ کام کی بات ہے تو یہ اس عظیم الخیال نابغے کی اپنی رائے ہوگی۔ اور کوئی سمجھے کہ یہ باتیں درست نہیں، تو ظاہر ہے اس کی وجہ میں لکھ چکا ہوں۔ اب شروع کرتے ہیں۔

طلبۂ مدارس کو چھٹیوں میں کیا کرنا چاہیے؟

پچھلی ایک پوسٹ میں ہم نے مختصراً عرض کی تھی کہ مدارس کے طلبہ چھٹیوں میں کیسی مصروفیات اپناتے ہیں۔ اس پوسٹ میں ہم یہ عرض کریں گے کہ مدارس کے طلبہ کو چھٹیوں میں کیا کرنا چاہیے۔

صرف ونحو شارٹ کورس

مدارس کے طلبہ جانتے ہیں کہ صرف ونحو کی حیثیت علومِ دینیہ میں بہت اہمیت ہے۔ اس میں تھوڑی سی کمزوری اگلے تمام سالوں میں وبالِ جان بن سکتی ہے اور حصول علم میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس لیے وہ طلبہ جن کا اولیٰ اور/یا ثانیہ کا سال تعلیمی لحاظ سے اچھا نہیں گذرا، ان کی کچھ کمی صرف ونحو میں رہ جاتی ہے۔ اب ان کے پاس ایک راستہ بچتا ہے کہ چھٹیوں میں صرف ونحو شارٹ کورس کرلیں۔ اس لیے عموماً مدارس میں اس کورس کا انعقاد ہوتا ہے اور طلبہ جوق در جوق شریک ہوتے ہیں۔
جو طلبہ درجۂ ثالثہ یا اس سے اوپر کے درجات پڑھ چکے ہوں وہ طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ فن اوپر کے درجات میں نہیں پڑھایا جاتا۔ اگر پڑھایا جاتا ہے تو وہ نحو کم اور نحوی فلسفہ زیادہ ہوتا ہے۔ (جیسے ثالثہ میں کافیہ اور رابعہ میں شرحِ جامی) اس لیے اوپر کے درجات کے طلبہ اس کورس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
ایسے طلبہ کے لیے ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ چھٹیوں میں الگ سے کورس کرنے کے بجائے یہ کریں کہ:
(1) دوران تعلیم کسی بھی سال میں کسی استاذ سے یہ دونوں فن تھوڑا تھوڑا پڑھ لیں۔
(2) یا کسی ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرہ کرلیں۔
(3) یا صرف ونحو کا ایک ایک سبق پڑھ کر اس کے مطابق اجراء کرلیں (مدرس کے طلبہ ”اجراء“ کے اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں)
(4) یا ابتدائی درجات کے طلبہ کو بٹھاکر ان کو تکرار کروادیں تو صرف ونحو کی یہ کمی بہت حد تک پوری ہوسکتی ہے اور چھٹیوں کو بہت حد تک دوسرے مفید کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔

جو طلبہ درجۂ اولیٰ پڑھ چکے ان کو صرف ونحو کورس میں شریک ہونا چاہیے؟

اولیٰ کے طلبہ کو صرف ونحو شارٹ کورس میرے خیال میں بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اولیٰ پڑھنے والے طلبہ کو لگتا ہے کہ ان سے کچھ کوتا ہی ہوئی ہے، تو سمجھ لیں ان سے ایک غلطی ہوگئی۔ اب چھٹیوں کو دوبارہ صرف ونحو میں لگاکر وہ ایک اور غلطی کررہے ہیں۔
اولی کے طلبہ کے لیے چھٹیوں میں صرف ونحو کورس کرنا ”غلطی“ اس لیے ہے کہ درجۂ اولیٰ پڑھنا ایک فل ٹائم جاب ہے۔ مسکراہٹ۔

صبح سے شام تک ضرب ضربا ضربوا کرنا، صیغوں کو پہچاننا، نحو کو سمجھنا، اجراء کرنا، ترکیبیں کرنا، اور پھر کئی دوسری کتابیں پڑھنا، وہ بھی پہلی مرتبہ بخدا ایک کارے دارد ہے۔ اور مکمل 24 گھنٹے مدرسہ میں صرف کیے بغیر اولیٰ پڑھنا ناممکن تو نہیں پر بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ اور سمجھیں کہ ایک طالب علم ایک سال مسلسل اس امتحان سے گذرتا ہے، اور اس کو چھٹیاں اس لیے دی گئیں کہ وہ تازہ دم ہوکر اگلے سال ثانیہ کے لیے تیار ہوجائے۔
اب جناب والا چھٹیاں تازم ہونے کے لیے نہیں گذار رہے بلکہ صرف ونحو کورس میں شریک ہوکر اپنے دماغ کو اسی جہدِ مسلسل میں مصروف رکھ رہے ہیں جس میں وہ ایک سال تک رہے، اور اگلے سال انہیں دوبارہ ان فنون کی مزید تفصیلات کو پڑھنا ہے اور اس کے علاوہ مزید فنون (مثلاً منطق اور تفسیر) بھی پڑھنے ہیں، تو بتائیے کیا وہ اگلے سال بہتر طور پر درجۂ ثانیہ شروع کرپائیں گے۔ اس لیے جو ساتھی درجۂ اولیٰ پڑھ چکے ہیں وہ چھٹیوں میں نیچے دی گئی کوئی مصروفیت اپنائیں کیونکہ اگلے سال انہیں دوبارہ یہ دونوں فنون پڑھنے ہوں گے، لہٰذا اگلے سال تھوڑی سی ہمت کرکے ان فنون پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس بارے میں مزید تحریریں بھی شائع کی جائیں گی۔
براہ کرم اپنی رائے سے ضرور نوازیئے گا۔
آپ کا طالبعلم بھائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مکتبۂ شاملہ نیا ورژن 100 جی بی (76 جی بی ڈاؤنلوڈ)

مکتبۂ شاملہ کے تعارف بارے میں لکھ چکا ہوں کہ مکتبۂ شاملہ کیا ہے۔ اس کے نسخۂ مفرغہ (App-only) کے بارے میں بھی بات ہوچکی ہے، اور نسخۂ وقفیہ پر بھی پوسٹ آچکی ہے۔ عموماً سادہ شاملہ 15 جی بی کا ہوتا ہے جس میں 6000 کے لگ بھگ کتابیں ہوتی ہیں جو ٹیکسٹ شکل میں ہوتی ہیں۔ مدینہ منوّرہ کے کچھ ساتھیوں نے اس کا نسخۂ وقفیہ ترتیب دیا، جس کا سائز تقریباً 72 جی بی تھا۔ ابھی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نسخۂ وقفیہ کا 100 جی بی والا ورژن بھی آچکا ہے۔ جس میں نئی کتابیں شامل کی گئی ہیں، اور کئی بگز کو بھی دور کیا گیا ہے۔ ڈاؤنلوڈ سائز 76 جی بی ہے، اور جب آپ ایکسٹریکٹ کرلیں گے تو تقریباً 100 جی بی کا ڈیٹا نکلے گا۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات میں کی گئی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مکمل درسِ نظامی کتب مع شروحات وکتبِ لغۃ اور بہت کچھ۔ صرف 12 جی بی میں

تعارف ”درسِ نظامی“ہند وپاک کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔کتابوں کے اس مجموعے کے اندر درسِ نظامی کے مکمل 8 درجات کی کتابیں اور ان کی شروح کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مجموعہ کس نے ترتیب دیا ہے، معلوم نہیں اور اندازے سے معلوم یہ ہوتا ہے یہ ابھی تک انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں۔ اور پاکستان (یا شاید کراچی)میں ”ہارڈ ڈسک بہ ہارڈ ڈسک“ منتقل ہوتا رہا ہے۔بندہ کو یہ مجموعہ ملا تو اس کا سائز قریباً 22 جی بی تھا۔ تو اسے چھوٹا کرنا اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا مناسب معلوم ہوا کہ دیگر احباب کو بھی استفادہ میں سہولت ہو، مستقبل کے لیے بھی ایک طرح سے محفوظ ہوجائے۔یہ سوچ کر کام شروع کردیا۔ اسے چھوٹا کرنے، زپ کرنے اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے میں قریباً ایک مہینہ کا عرصہ لگا ہے۔ اور کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سائز 11.8 جی بی یعنی پہلے سے تقریباً نصف ہے۔ اس سے مزید چھوٹا کرنے پر صفحات کا معیار خراب ہونے کا خدشہ تھا، تو نہ کیا۔ جن احباب نے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ سے خود اپنے اور سب کے لیے توفیقِ عمل کی دعا کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کرنے کی

مختلف سوفٹویئرز میں عربی کے مخصوص حروف کیسے لکھیں؟

کمپیوٹر میں یونیکوڈ اردو ٹائپ کرنے لیے مختلف کی بورڈز دستیاب ہیں۔ بندہ چونکہ پہلے انپیج میں ٹائپنگ سیکھ چکا تھا، لہٰذا یونیکوڈ کے آنے پر خواہش تھی کہ ایسا کی بورڈ مل جائے جو ان پیج کی بورڈ کے قریب قریب ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ایک کی بورڈ ملا، میری رائے کے مطابق یہ ان پیج کے کی بورڈ سے قریب تر ہے۔ اب جو ساتھی نئے سیکھنے والے ہیں، ان کو کون سا کی بورڈ سیکھنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ میری رائے طلبۂ مدارس کے لیے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عربی کی بورڈ نہ سیکھیں، کیونکہ عربی کی بورڈ کو اردو اور انگریزی کی بورڈز کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے، کیونکہ احباب جانتے ہیں کہ ان پیج کا فونیٹک کی بورڈ ملتے جلتے انگریزی حروف پر ترتیب دیا گیا ہے۔ مثلاً ”p“ پر آپ کو ”‬پ“ ملے گا۔ اس طرح حروف کو یاد رکھنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو آدمی اردو سیکھ لے وہ تھوڑی سی مشق سے انگریزی ٹائپنگ کرسکتا ہے، اور انگریزی ٹائپنگ سیکھا ہوا شخص کچھ توجہ سے اردو بھی ٹائپ کرلیتا ہے۔ اور عربی کے تقریباً سارے ہی حروف اردو میں موجود ہیں، تو الگ سے کیوں نیا کی بورڈ سیکھا جائے۔ کئی کی بورڈز پر توجہ دینے کے بجائے بہتر یہ ہے ایک ہی ک