حفاظ کرام کے لیے عربی لہجے میں قرآن پڑھنا ایک فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن عربی میں ہے، اور ایک عربی ہی قرآن کریم کو عجمی سے بہتر پڑھ سکتا ہے۔ عجمی کے مقابلے میں عربی لہجہ، انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ترجیح دی جائے گی۔
ہندوستان پاکستان کے جو حفاظ ہیں ان کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، جسے میں پاک وہند انداز کہوں گا۔ بلکہ یہ انداز نہیں ہوتا ہے، بس قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کو ہم منزل سنانے کا انداز کہہ سکتے ہیں۔ کہ جس طرح ایک بچہ سبق، سبقی یا منزل استاذ صاحب کو سنا رہا ہوتا ہے اسی لہجے میں امام صاحب نماز میں قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا تراویح میں قرآن سنایا جاتا ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے، اس کو یہ نہ سمجھا جائے کہ 100 فیصد ایسا ہی ہوتا ہے۔
میں خود ایک طالب علم رہا ہوں، اب بھی ہوں، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس پر زور دیتے تھے کہ قرآن کریم کو عربی لہجہ میں پڑھا جائے، تلقین کرتے تھے، اس کا اثر یہ ہوا کہ میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ کچھ پڑھا، کچھ سیکھا، کچھ تجربات کیے، وہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ میں کوئی مستقل قاری نہیں ہوں، کسی پاس بیٹھ کر مشق نہیں کی، البتہ ارادہ رکھتا ہوں۔ ان شاء اللہ۔ اس لیے ان باتوں کو ایک طالبعلمانہ رائے سمجھی جائے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے دوران کئی باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے، ادائیگئ حروف، لہجہ، مناسب جگہ وقف کرنا، لحنِ جلی اور لحنِ خفی سے بچنا، غنہ مناسب انداز میں کرنا، وغیرہ۔
چونکہ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے اس لیے اس پر عمومی انداز میں بات کرتے ہیں۔
اس کا آسان حل یہ ہے کہ ان عربی قاریوں کو سنا جائے جو سادگی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں، بہت زیادہ تغنی (خوبصورت آواز میں/بناکر پڑھنا) نہیں کرتے۔ مثلاً شیخ حذیفی ہیں، اور شیخ ماہر المعیقلی ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اہل عرب لہجہ سے ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ائمۂ حرمین عموماً وہ امام ہوتے ہیں جو سادگی لیکن عمدہ ادائیگی کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔
ادائیگی اور لہجہ درست کرنے کے لیے عربی قرّاء کو سننا اور پھر ان کی قراءت کی مشق کرنا سب سے بہتر ہے۔ یہ ایک اچھی ویب سائٹ ہے، اس میں مشہور قرٗاء کی آڈیو تلاوت موجود ہے۔ شروع میں کسی ایک قاری کو چنیں (مثلاً شیخ الحذیفی، یا ماہر المعیقلی) اور مسلسل سنتے رہیں، اتنا سنیں کہ ان کا انداز ذہن میں نقش ہوجائے۔ اور پھر ان کی نقل کرنے کوشش کریں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ کبھی بھی 100 فیصد نقل اتارنے کی کوشش مت کریں، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ ایک ڈبے میں بند ہوجائیں گے، کوشش کریں کہ لہجہ کسی قاری کا ہو اور آپ اس لہجے میں اپنی مرضی سے تبدیلی کریں۔ آپ کیوں کسی کی نقل اتاریں، نقل اتارنا کوئی کمال نہیں ہے، بلکہ ایک نیا انداز پیش کرنا کمال ہے۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی انداز دے دیں اور وہ انداز پسند کیا جانے لگے۔ اس لیے مکمل نقل مت اتاریں بلکہ اپنے انداز کا چربہ ضرور شامل کریں۔ درج ذیل ریکارڈنگ سنیں
قاری خالد الجلیل کی آواز میں سورہ حج کی چند آیات سنیئے۔
رمضان کی مبارک ساعات میں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔
ہندوستان پاکستان کے جو حفاظ ہیں ان کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، جسے میں پاک وہند انداز کہوں گا۔ بلکہ یہ انداز نہیں ہوتا ہے، بس قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کو ہم منزل سنانے کا انداز کہہ سکتے ہیں۔ کہ جس طرح ایک بچہ سبق، سبقی یا منزل استاذ صاحب کو سنا رہا ہوتا ہے اسی لہجے میں امام صاحب نماز میں قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، یا تراویح میں قرآن سنایا جاتا ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے، اس کو یہ نہ سمجھا جائے کہ 100 فیصد ایسا ہی ہوتا ہے۔
میں خود ایک طالب علم رہا ہوں، اب بھی ہوں، والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس پر زور دیتے تھے کہ قرآن کریم کو عربی لہجہ میں پڑھا جائے، تلقین کرتے تھے، اس کا اثر یہ ہوا کہ میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ کچھ پڑھا، کچھ سیکھا، کچھ تجربات کیے، وہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ میں کوئی مستقل قاری نہیں ہوں، کسی پاس بیٹھ کر مشق نہیں کی، البتہ ارادہ رکھتا ہوں۔ ان شاء اللہ۔ اس لیے ان باتوں کو ایک طالبعلمانہ رائے سمجھی جائے۔
قرآن کریم کی تلاوت کے دوران کئی باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے، ادائیگئ حروف، لہجہ، مناسب جگہ وقف کرنا، لحنِ جلی اور لحنِ خفی سے بچنا، غنہ مناسب انداز میں کرنا، وغیرہ۔
چونکہ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے اس لیے اس پر عمومی انداز میں بات کرتے ہیں۔
حروف اور الفاظِ قرآن کریم کی ادائیگی
قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے بہت ساری خوبیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ بہت بنیادی چیز ہے کہ قاری صاحب حروف اور الفاظِ قرآن کریم کو کیسے ادا کررہے ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ حروف حلقی میں درست ادائیگی نہیں ہوتی۔ ”س“ اور ”ص“ میں تمیز نہیں کی جاتی، ”ث“ اور ”س“ میں فرق نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح ”اَ“ (ہمزہ) کو سختی سے پڑھنے کے بجائے مجہول پڑھا جاتا ہے، ”ع“ کا تلفظ ٹھیک نہیں ہے، وغیرہ۔ تو یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق حروف کی ادائیگی سے ہے۔اس کا آسان حل یہ ہے کہ ان عربی قاریوں کو سنا جائے جو سادگی کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں، بہت زیادہ تغنی (خوبصورت آواز میں/بناکر پڑھنا) نہیں کرتے۔ مثلاً شیخ حذیفی ہیں، اور شیخ ماہر المعیقلی ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اہل عرب لہجہ سے ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ائمۂ حرمین عموماً وہ امام ہوتے ہیں جو سادگی لیکن عمدہ ادائیگی کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔
تغنی یعنی خوبصورت میں قرآن کریم تلاوت کرنا
دوسری چیز ہے حسن صوت، یعنی آواز کی خوبصورتی۔ اس وقت کئی قراء ہیں جو اس وقت تغنی کے حوالے سے مشہور ہیں، قاری مشاری راشد العفاسی، (یہ بہت کم تغنی کرتے ہیں) جن میں قاری خالد الجلیل، قاری عبد الولی ارکانی وغیرہ ہیں۔ یہ دونوں تغنی نسبتاً زیادہ کرتے ہیں۔مقصد کی بات
میری طرح بہت سے طالب علم ہیں، ائمۂ کرام ہیں، قرّاء ہیں جو اپنی قراءت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، سوچتے ہیں۔ انہیں کیا کرنا چاہیے؟پہلا قدم: عربی قرّاء کو سنیں
ہر قاری کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، غنہ کرنے کا، مد کرنے کا، وقف کا، تھوڑی سی توجہ کرکے ان چیزوں کا نوٹ کیا جائے تو ایک قاری کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی چند چیزیں ہی ہر قاری کو منفرد بناتی ہیں۔ اور انہی چند چیزوں کو کچھ فرق کے ساتھ دہراکر تلاوت کی جاتی ہے۔ادائیگی اور لہجہ درست کرنے کے لیے عربی قرّاء کو سننا اور پھر ان کی قراءت کی مشق کرنا سب سے بہتر ہے۔ یہ ایک اچھی ویب سائٹ ہے، اس میں مشہور قرٗاء کی آڈیو تلاوت موجود ہے۔ شروع میں کسی ایک قاری کو چنیں (مثلاً شیخ الحذیفی، یا ماہر المعیقلی) اور مسلسل سنتے رہیں، اتنا سنیں کہ ان کا انداز ذہن میں نقش ہوجائے۔ اور پھر ان کی نقل کرنے کوشش کریں۔
یہ بات یاد رکھیں کہ کبھی بھی 100 فیصد نقل اتارنے کی کوشش مت کریں، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ ایک ڈبے میں بند ہوجائیں گے، کوشش کریں کہ لہجہ کسی قاری کا ہو اور آپ اس لہجے میں اپنی مرضی سے تبدیلی کریں۔ آپ کیوں کسی کی نقل اتاریں، نقل اتارنا کوئی کمال نہیں ہے، بلکہ ایک نیا انداز پیش کرنا کمال ہے۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی انداز دے دیں اور وہ انداز پسند کیا جانے لگے۔ اس لیے مکمل نقل مت اتاریں بلکہ اپنے انداز کا چربہ ضرور شامل کریں۔ درج ذیل ریکارڈنگ سنیں
دوسرا قدم: تغنی کی مشق کریں
بہت زیادہ غنی اگرچہ پسندیدہ نہیں ہے، لیکن ایک حد تک تغنی کرنا مستحسن بھی ہے اور آپ ﷺ کے فرمان سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ اس لیے کچھ ایسے قرّاء کو بھی سننا چاہیے جو تغنی کرتے ہیں۔ ان میں قاری عبد الولی الارکانی ہیں اور قاری خالد الجلیل بھی اچھی تلاوت کرتے ہیں۔قاری خالد الجلیل کی آواز میں سورہ حج کی چند آیات سنیئے۔
خلاصہ
اس طرح مشق کرنا جاری رکھیں، نماز پڑھائیں تو بھی کچھ نہ کچھ تبدیلی لائیں، خود تلاوت کریں تو بھی اس کو سامنے رکھیں۔ بلکہ روزانہ کچھ وقت نکال کر خاص اس ترتیب سے مشق کرتے رہیں، ان شاء اللہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کو اس پر عبور حاصل ہوچکا ہوگا۔رمضان کی مبارک ساعات میں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ یہاں تحریر کیجیے۔