نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سالانہ چھٹیوں میں طلبۂ مدارس یہ مشغولیات اپنائیں

پچھلے کچھ مضامین میں ہم نے طلبہ کی چھٹیوں کی مصروفیات کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا، اسی سلسلے میں مزید کچھ گذارشات پیش ہیں۔

تبلیغی اسفار

تبلیغی اسفار وقت کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے چھٹیوں کا اچھا مصرف ہیں۔ عموماً اہل مدارس تبلیغی حضرات کے رویے اور مزاج سے شاکی رہتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی تبلیغ میں وقت لگانا اور ان حضرات کے ساتھ کچھ وقت گذارنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ اسفار شہر سے باہر ہوں تو اور بھی زیادہ اچھا ہے۔ چونکہ چھٹیاں ذہنی نشاط حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں، اور تبلیغی سفر اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ خاص کر وہ طالب علم جو پورا سال بہت مطالعہ کرتا رہا ہو، اس کے مزاج میں کچھ درشتی سی آگئی ہو اور اس کو تھکن تھکن سی ہوتی ہو تو ایسے طالب علم کو ضرور تبلیغی جماعت میں جانا چاہیے۔

تبلیغ میں وقت لگانا بہتر کیوں ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
تبلیغ میں سامان لے کر پیدل چلنا عام سی بات ہے، اس سے ایک تو ورزش ہوجاتی ہے، سامان لے کر پیدل چلنا اس لیے بھی مفید ہے کہ اس سے کمر، کندھوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی بہترین ورزش ہوجاتی ہے۔ خاص کر رانوں پر تو بہت وزن پڑتا ہے۔ اس لیے تبلیغی سفر میں روحانی فوائد حاصل کرنے، تبلیغ کرنے اور ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ ان پہلوؤں پر بھی نظر ہونی چاہیے۔
تبلیغی ساتھی ایک مسجد سے دوسری مسجد منتقل ہونے کے بعد تین دن اس مسجد میں گذارتے ہیں، اس درمیان عرصے میں آرام اور مناسب کھانا کھانے سے مسلز/پٹھوں کو آرام مل جاتا ہے اور پھر تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ تین دن بعد پھر اگلا سفر شروع ہوجاتا ہے۔
مسجد میں قیام کے دوران مختلف امور میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملتا ہے، مختلف مزاجوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں برتن بھی دھونے پڑتے ہیں، کھانا پکانا ہوتا ہے، سامان خریدکر لانا اور پھر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا، اور پھر ساتھیوں کی خبرگیری وغیرہ۔ آدمی اچھا خاصا سوشل ہوجاتا ہے۔ یہ انسانی دماغ اور روح کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تبلیغی اسفار میں بہت سے کم پڑھے لکھے ساتھیوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ تو مدارس کے طلبہ ایسے ساتھیوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں۔ تعلیم کرنے میں دلچسپی لے کر خطابت اور دعوت کی بنیادی مشق بھیی کرسکتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ خرابی نظر آئے تو اس کو بھی مناسب انداز سے دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں مثبت رویہ پروان چڑھاتی ہیں۔
تبلیغ میں دن کو آرام کا بھی موقع ملتا ہے، اس لیے رات کے وقت بالکل تازم دم ہوکر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا عند اللہ بہت محبوب ہے۔ اساتذہ کرام رات کی تنہائی کی عبادت پر بہت زور دیتے ہیں، اس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
کوئی ساتھی دنیاوی علوم پڑھے ہوئے ہوں تو فرصت کے اوقات میں ان سے کوئی فن پڑھا جاسکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

عربی علوم سے ہٹ کر کوئی فن پڑھنا

ایک بات جس کی طرف مدارس کے طلبہ کی توجہ نہیں جاتی، وہ یہ کہ چھٹیوں میں ذائتہ بدلنے کے لیے طلبہ کوئی ایسا فن بھی پڑھنا چاہیے جس کا تعلق دین/عربی سے نہ ہو۔ سائنسی علوم مثلاً کیمسٹری، فزکس، بائیولوجی پڑھی جاسکتی ہے۔ سوشیالوجی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، جیوگرافی (علمِ ارضیات) پڑھا جاسکتا ہے، علمِ فلکیات (آسٹرونومی) سیکھا جاسکتا ہے، علم التعلیم کی مبادیات کو سیکھا جاسکتاہے، کمپیوٹر سائنس کی بنیادوں کو پڑھا جاسکتا ہے (کمپیوٹر چلانا الگ فن ہے، اور کمپیوٹر سائنس الگ، کمپیوٹر چلانا سیکھنے/کمپیوٹر کورسز کرنے پر الگ سے ہم بات کریں گے)۔ اسی طرح ریاضی پڑھنا ایک اچھا مشغلہ ہے۔ فوٹوگرافی سیکھنا بھی ایک اچھا مشغلہ ہے، (فوٹوگرافی غیر جاندار چیزوں اور فطرت کی بھی ہوسکتی ہے)۔ اور علم دِین سے فراغت کے بعد ان میں سے کسی علم میں اختصاص پیدا کرکے اس فن کو پڑھاکر اپنے معاش کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارے اکابرین اپنے وقت کے ان علوم کو جانتے تھے جن کا تعلق عموماً دین سے نہیں ہوتا تھا، مگر اب ہم انہی علوم کو ”دنیاوی“ کہہ کر ان سے نفرت کرتے ہیں، پرے پھینک دیتے ہیں۔ یا ان کے ساتھ ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں، اور بس ہم سب کچھ حاصل کرچکے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ یہ سارے علوم کسی نہ کسی درجے میں قرآنی علوم کو سمجھنے اور سمجھانے میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔

کمپیوٹر بطور فن سیکھنا

موجودہ زمانے کی اہم ترین ضرورت کمپیوٹر کا فن ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اہل مدارس کمپیوٹر کو اتنا ہی سیکھتے ہیں جس سے وہ ”روزی“ کما سکیں۔ جبکہ معاملہ اس سے بہت آگے کا ہونا چاہیے۔
مدارس کے طلبہ سی آئی ٹی (سرٹیفیکیٹ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی) کرلیتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ یہ سرٹیفیکیٹ زیادہ سے زیادہ بنیادی کمپیوٹر چلانا (Basic Computer Handling) جاننے کے لیے مفید ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یا پھر گرافکس ڈیزائننگ پر جاکر ان کی گاڑی بریک لگالیتی ہے اور بس۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کورسز نہیں کرنے چاہئیں، میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کورسز کافی نہیں ہیں۔ ہمیں بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ویب ڈیزائننگ کے بعد ویب ڈیویلمپنٹ میں جانا چاہیے، اس سے آگے ویب ایپ ڈیویلپمنٹ ہے۔ گرافکس ڈیزائننگ کو پروفیشنل لیول تک لے جانا چاہیے۔ آج کل اسمارٹ فونز کا زمانہ ہے، اس لیے اینڈرائڈ اور آئی او ایس ایپ ایپ ڈیویلپمنٹ کی طرف آنا چاہیے۔ تھری ڈی ماڈلنگ سیکھنی چاہیے، اس سے ہم اسلامک اینیمیشنز بھی بناسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی بھی کمپیوٹر فن میں مہارت حاصل کرکے اس کا کورس بناکر آنلائن فروخت کرسکتے ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو آج کی مارکیٹ میں بھی بِکتی ہیں۔ اس لیے مدارس کے طلبہ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔
یاد رہے یہاں میں ان ساتھیوں کی بات کررہا ہوں جو مدارس میں تدریس یا مساجد میں امامت وخطابت کو ذریعۂ معاش نہیں بنانا چاہتے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی ساتھی کمپیوٹر سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر اسے کمپیوٹر کی تاریخ، اس کی لینگویجز، ہارڈویئر سٹرکچر کو پڑھنا چاہیے۔ پھر سوفٹویئر ڈیویلپمنٹ سیکھنا چاہیے۔ ایسے ساتھی کمپیوٹر میں تصنیف وتالیف کے شعبے کو بھی اپنا سکتے ہیں۔

چھٹیوں میں امتحانات کی تیاری کرنا

بعض طلبہ دورانِ تعلیم مختلف بورڈز کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں، ایسے طلبہ چھٹیوں میں کوچنگ سینٹرز جاکر اپنے پسندیدہ سبجیکٹ کی کوچنگ بھی لے سکتے ہیں، اور لینا چاہیے۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست جو جامعۃ الرشید کے سالوں میں ہمارے ساتھ رہے، ان کو فلکیات میں بہت دلچسپی ہے، آج کل اس حوالے سے ایک فیس بک پیج بھی چلا رہے ہیں، کاش کہ وہ فلکیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، کل کیا بعید ہے کہ کسی اہم پوسٹ پر تعینات ہوکر اعلیٰ خدمات انجام دیں۔ ہمارے ہاں ایسے ساتھی بہت پائے جاتے ہیں، بس کمی ہوتی ہے سوچنے کی، اور رہنمائی حاصل کرنے کی۔

کسی کھیل کی کوچنگ حاصل کرنا

کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں مختلف اسپورٹس کلبز مختلف کھیلوں مثلاً فٹ بال، کرکٹ، مارشل آرٹس وغیرہ میں شارٹ کورسز کرواتے ہیں، (گوکہ میں کرکٹ کو کَرکَٹ کہتا ہوں، لیکن کرکٹ ہماری قوم میں لفظ غلط کی طرح پھیل چکا ہے، اس لیے اسے سیکھنے میں شاید حرج نہ ہو) مدارس کے طلبہ بھی ان کلبز کو جوائن کرکے مخلتف کھیلوں میں کوچنگ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس زمانے میں کھیلوں میں مہارت حاصل کرنا بہت مفید ہے، اور اس زمانے میں کسی کھیل کا ماہر بعض دفعہ وہ کام کرجاتا ہے جو جنگ کا ماہر نہیں کرسکتا۔

خلاصہ

یہ میرے کچھ خیالات تھے کہ طلبۂ مدارس کو چھٹیاں کیسے گذارنی چاہئیں، میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ میرے خیال میں یہ بحث کا آغاز ہے، ہر ساتھی کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ بہت شکریہ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مکتبۂ شاملہ نیا ورژن 100 جی بی (76 جی بی ڈاؤنلوڈ)

مکتبۂ شاملہ کے تعارف بارے میں لکھ چکا ہوں کہ مکتبۂ شاملہ کیا ہے۔ اس کے نسخۂ مفرغہ (App-only) کے بارے میں بھی بات ہوچکی ہے، اور نسخۂ وقفیہ پر بھی پوسٹ آچکی ہے۔ عموماً سادہ شاملہ 15 جی بی کا ہوتا ہے جس میں 6000 کے لگ بھگ کتابیں ہوتی ہیں جو ٹیکسٹ شکل میں ہوتی ہیں۔ مدینہ منوّرہ کے کچھ ساتھیوں نے اس کا نسخۂ وقفیہ ترتیب دیا، جس کا سائز تقریباً 72 جی بی تھا۔ ابھی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نسخۂ وقفیہ کا 100 جی بی والا ورژن بھی آچکا ہے۔ جس میں نئی کتابیں شامل کی گئی ہیں، اور کئی بگز کو بھی دور کیا گیا ہے۔ ڈاؤنلوڈ سائز 76 جی بی ہے، اور جب آپ ایکسٹریکٹ کرلیں گے تو تقریباً 100 جی بی کا ڈیٹا نکلے گا۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات میں کی گئی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مکمل درسِ نظامی کتب مع شروحات وکتبِ لغۃ اور بہت کچھ۔ صرف 12 جی بی میں

تعارف ”درسِ نظامی“ہند وپاک کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔کتابوں کے اس مجموعے کے اندر درسِ نظامی کے مکمل 8 درجات کی کتابیں اور ان کی شروح کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مجموعہ کس نے ترتیب دیا ہے، معلوم نہیں اور اندازے سے معلوم یہ ہوتا ہے یہ ابھی تک انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں۔ اور پاکستان (یا شاید کراچی)میں ”ہارڈ ڈسک بہ ہارڈ ڈسک“ منتقل ہوتا رہا ہے۔بندہ کو یہ مجموعہ ملا تو اس کا سائز قریباً 22 جی بی تھا۔ تو اسے چھوٹا کرنا اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا مناسب معلوم ہوا کہ دیگر احباب کو بھی استفادہ میں سہولت ہو، مستقبل کے لیے بھی ایک طرح سے محفوظ ہوجائے۔یہ سوچ کر کام شروع کردیا۔ اسے چھوٹا کرنے، زپ کرنے اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے میں قریباً ایک مہینہ کا عرصہ لگا ہے۔ اور کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سائز 11.8 جی بی یعنی پہلے سے تقریباً نصف ہے۔ اس سے مزید چھوٹا کرنے پر صفحات کا معیار خراب ہونے کا خدشہ تھا، تو نہ کیا۔ جن احباب نے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ سے خود اپنے اور سب کے لیے توفیقِ عمل کی دعا کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کرنے کی

مختلف سوفٹویئرز میں عربی کے مخصوص حروف کیسے لکھیں؟

کمپیوٹر میں یونیکوڈ اردو ٹائپ کرنے لیے مختلف کی بورڈز دستیاب ہیں۔ بندہ چونکہ پہلے انپیج میں ٹائپنگ سیکھ چکا تھا، لہٰذا یونیکوڈ کے آنے پر خواہش تھی کہ ایسا کی بورڈ مل جائے جو ان پیج کی بورڈ کے قریب قریب ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ایک کی بورڈ ملا، میری رائے کے مطابق یہ ان پیج کے کی بورڈ سے قریب تر ہے۔ اب جو ساتھی نئے سیکھنے والے ہیں، ان کو کون سا کی بورڈ سیکھنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ میری رائے طلبۂ مدارس کے لیے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عربی کی بورڈ نہ سیکھیں، کیونکہ عربی کی بورڈ کو اردو اور انگریزی کی بورڈز کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے، کیونکہ احباب جانتے ہیں کہ ان پیج کا فونیٹک کی بورڈ ملتے جلتے انگریزی حروف پر ترتیب دیا گیا ہے۔ مثلاً ”p“ پر آپ کو ”‬پ“ ملے گا۔ اس طرح حروف کو یاد رکھنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو آدمی اردو سیکھ لے وہ تھوڑی سی مشق سے انگریزی ٹائپنگ کرسکتا ہے، اور انگریزی ٹائپنگ سیکھا ہوا شخص کچھ توجہ سے اردو بھی ٹائپ کرلیتا ہے۔ اور عربی کے تقریباً سارے ہی حروف اردو میں موجود ہیں، تو الگ سے کیوں نیا کی بورڈ سیکھا جائے۔ کئی کی بورڈز پر توجہ دینے کے بجائے بہتر یہ ہے ایک ہی ک