پچھلے کچھ مضامین میں ہم نے طلبہ کی چھٹیوں کی مصروفیات کے بارے میں کچھ عرض کیا تھا، اسی سلسلے میں مزید کچھ گذارشات پیش ہیں۔
تبلیغ میں وقت لگانا بہتر کیوں ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
تبلیغ میں سامان لے کر پیدل چلنا عام سی بات ہے، اس سے ایک تو ورزش ہوجاتی ہے، سامان لے کر پیدل چلنا اس لیے بھی مفید ہے کہ اس سے کمر، کندھوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی بہترین ورزش ہوجاتی ہے۔ خاص کر رانوں پر تو بہت وزن پڑتا ہے۔ اس لیے تبلیغی سفر میں روحانی فوائد حاصل کرنے، تبلیغ کرنے اور ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ ان پہلوؤں پر بھی نظر ہونی چاہیے۔
تبلیغی ساتھی ایک مسجد سے دوسری مسجد منتقل ہونے کے بعد تین دن اس مسجد میں گذارتے ہیں، اس درمیان عرصے میں آرام اور مناسب کھانا کھانے سے مسلز/پٹھوں کو آرام مل جاتا ہے اور پھر تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ تین دن بعد پھر اگلا سفر شروع ہوجاتا ہے۔
مسجد میں قیام کے دوران مختلف امور میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملتا ہے، مختلف مزاجوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں برتن بھی دھونے پڑتے ہیں، کھانا پکانا ہوتا ہے، سامان خریدکر لانا اور پھر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا، اور پھر ساتھیوں کی خبرگیری وغیرہ۔ آدمی اچھا خاصا سوشل ہوجاتا ہے۔ یہ انسانی دماغ اور روح کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تبلیغی اسفار میں بہت سے کم پڑھے لکھے ساتھیوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ تو مدارس کے طلبہ ایسے ساتھیوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں۔ تعلیم کرنے میں دلچسپی لے کر خطابت اور دعوت کی بنیادی مشق بھیی کرسکتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ خرابی نظر آئے تو اس کو بھی مناسب انداز سے دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں مثبت رویہ پروان چڑھاتی ہیں۔
تبلیغ میں دن کو آرام کا بھی موقع ملتا ہے، اس لیے رات کے وقت بالکل تازم دم ہوکر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا عند اللہ بہت محبوب ہے۔ اساتذہ کرام رات کی تنہائی کی عبادت پر بہت زور دیتے ہیں، اس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
کوئی ساتھی دنیاوی علوم پڑھے ہوئے ہوں تو فرصت کے اوقات میں ان سے کوئی فن پڑھا جاسکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مدارس کے طلبہ سی آئی ٹی (سرٹیفیکیٹ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی) کرلیتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ یہ سرٹیفیکیٹ زیادہ سے زیادہ بنیادی کمپیوٹر چلانا (Basic Computer Handling) جاننے کے لیے مفید ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یا پھر گرافکس ڈیزائننگ پر جاکر ان کی گاڑی بریک لگالیتی ہے اور بس۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کورسز نہیں کرنے چاہئیں، میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کورسز کافی نہیں ہیں۔ ہمیں بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ویب ڈیزائننگ کے بعد ویب ڈیویلمپنٹ میں جانا چاہیے، اس سے آگے ویب ایپ ڈیویلپمنٹ ہے۔ گرافکس ڈیزائننگ کو پروفیشنل لیول تک لے جانا چاہیے۔ آج کل اسمارٹ فونز کا زمانہ ہے، اس لیے اینڈرائڈ اور آئی او ایس ایپ ایپ ڈیویلپمنٹ کی طرف آنا چاہیے۔ تھری ڈی ماڈلنگ سیکھنی چاہیے، اس سے ہم اسلامک اینیمیشنز بھی بناسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی بھی کمپیوٹر فن میں مہارت حاصل کرکے اس کا کورس بناکر آنلائن فروخت کرسکتے ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو آج کی مارکیٹ میں بھی بِکتی ہیں۔ اس لیے مدارس کے طلبہ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔
یاد رہے یہاں میں ان ساتھیوں کی بات کررہا ہوں جو مدارس میں تدریس یا مساجد میں امامت وخطابت کو ذریعۂ معاش نہیں بنانا چاہتے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی ساتھی کمپیوٹر سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر اسے کمپیوٹر کی تاریخ، اس کی لینگویجز، ہارڈویئر سٹرکچر کو پڑھنا چاہیے۔ پھر سوفٹویئر ڈیویلپمنٹ سیکھنا چاہیے۔ ایسے ساتھی کمپیوٹر میں تصنیف وتالیف کے شعبے کو بھی اپنا سکتے ہیں۔
تبلیغی اسفار
تبلیغی اسفار وقت کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے چھٹیوں کا اچھا مصرف ہیں۔ عموماً اہل مدارس تبلیغی حضرات کے رویے اور مزاج سے شاکی رہتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی تبلیغ میں وقت لگانا اور ان حضرات کے ساتھ کچھ وقت گذارنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ اسفار شہر سے باہر ہوں تو اور بھی زیادہ اچھا ہے۔ چونکہ چھٹیاں ذہنی نشاط حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہیں، اور تبلیغی سفر اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ خاص کر وہ طالب علم جو پورا سال بہت مطالعہ کرتا رہا ہو، اس کے مزاج میں کچھ درشتی سی آگئی ہو اور اس کو تھکن تھکن سی ہوتی ہو تو ایسے طالب علم کو ضرور تبلیغی جماعت میں جانا چاہیے۔تبلیغ میں وقت لگانا بہتر کیوں ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
تبلیغ میں سامان لے کر پیدل چلنا عام سی بات ہے، اس سے ایک تو ورزش ہوجاتی ہے، سامان لے کر پیدل چلنا اس لیے بھی مفید ہے کہ اس سے کمر، کندھوں، پنڈلیوں اور پاؤں کی بہترین ورزش ہوجاتی ہے۔ خاص کر رانوں پر تو بہت وزن پڑتا ہے۔ اس لیے تبلیغی سفر میں روحانی فوائد حاصل کرنے، تبلیغ کرنے اور ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ ان پہلوؤں پر بھی نظر ہونی چاہیے۔
تبلیغی ساتھی ایک مسجد سے دوسری مسجد منتقل ہونے کے بعد تین دن اس مسجد میں گذارتے ہیں، اس درمیان عرصے میں آرام اور مناسب کھانا کھانے سے مسلز/پٹھوں کو آرام مل جاتا ہے اور پھر تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ تین دن بعد پھر اگلا سفر شروع ہوجاتا ہے۔
مسجد میں قیام کے دوران مختلف امور میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملتا ہے، مختلف مزاجوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں برتن بھی دھونے پڑتے ہیں، کھانا پکانا ہوتا ہے، سامان خریدکر لانا اور پھر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا، اور پھر ساتھیوں کی خبرگیری وغیرہ۔ آدمی اچھا خاصا سوشل ہوجاتا ہے۔ یہ انسانی دماغ اور روح کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تبلیغی اسفار میں بہت سے کم پڑھے لکھے ساتھیوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ تو مدارس کے طلبہ ایسے ساتھیوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی لے سکتے ہیں۔ تعلیم کرنے میں دلچسپی لے کر خطابت اور دعوت کی بنیادی مشق بھیی کرسکتے ہیں۔ اگر ان کو کچھ خرابی نظر آئے تو اس کو بھی مناسب انداز سے دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں مثبت رویہ پروان چڑھاتی ہیں۔
تبلیغ میں دن کو آرام کا بھی موقع ملتا ہے، اس لیے رات کے وقت بالکل تازم دم ہوکر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونا عند اللہ بہت محبوب ہے۔ اساتذہ کرام رات کی تنہائی کی عبادت پر بہت زور دیتے ہیں، اس سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
کوئی ساتھی دنیاوی علوم پڑھے ہوئے ہوں تو فرصت کے اوقات میں ان سے کوئی فن پڑھا جاسکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
عربی علوم سے ہٹ کر کوئی فن پڑھنا
ایک بات جس کی طرف مدارس کے طلبہ کی توجہ نہیں جاتی، وہ یہ کہ چھٹیوں میں ذائتہ بدلنے کے لیے طلبہ کوئی ایسا فن بھی پڑھنا چاہیے جس کا تعلق دین/عربی سے نہ ہو۔ سائنسی علوم مثلاً کیمسٹری، فزکس، بائیولوجی پڑھی جاسکتی ہے۔ سوشیالوجی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، جیوگرافی (علمِ ارضیات) پڑھا جاسکتا ہے، علمِ فلکیات (آسٹرونومی) سیکھا جاسکتا ہے، علم التعلیم کی مبادیات کو سیکھا جاسکتاہے، کمپیوٹر سائنس کی بنیادوں کو پڑھا جاسکتا ہے (کمپیوٹر چلانا الگ فن ہے، اور کمپیوٹر سائنس الگ، کمپیوٹر چلانا سیکھنے/کمپیوٹر کورسز کرنے پر الگ سے ہم بات کریں گے)۔ اسی طرح ریاضی پڑھنا ایک اچھا مشغلہ ہے۔ فوٹوگرافی سیکھنا بھی ایک اچھا مشغلہ ہے، (فوٹوگرافی غیر جاندار چیزوں اور فطرت کی بھی ہوسکتی ہے)۔ اور علم دِین سے فراغت کے بعد ان میں سے کسی علم میں اختصاص پیدا کرکے اس فن کو پڑھاکر اپنے معاش کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمارے اکابرین اپنے وقت کے ان علوم کو جانتے تھے جن کا تعلق عموماً دین سے نہیں ہوتا تھا، مگر اب ہم انہی علوم کو ”دنیاوی“ کہہ کر ان سے نفرت کرتے ہیں، پرے پھینک دیتے ہیں۔ یا ان کے ساتھ ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں، اور بس ہم سب کچھ حاصل کرچکے۔ یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ یہ سارے علوم کسی نہ کسی درجے میں قرآنی علوم کو سمجھنے اور سمجھانے میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔کمپیوٹر بطور فن سیکھنا
موجودہ زمانے کی اہم ترین ضرورت کمپیوٹر کا فن ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اہل مدارس کمپیوٹر کو اتنا ہی سیکھتے ہیں جس سے وہ ”روزی“ کما سکیں۔ جبکہ معاملہ اس سے بہت آگے کا ہونا چاہیے۔مدارس کے طلبہ سی آئی ٹی (سرٹیفیکیٹ ان انفارمیشن ٹیکنالوجی) کرلیتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ یہ سرٹیفیکیٹ زیادہ سے زیادہ بنیادی کمپیوٹر چلانا (Basic Computer Handling) جاننے کے لیے مفید ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یا پھر گرافکس ڈیزائننگ پر جاکر ان کی گاڑی بریک لگالیتی ہے اور بس۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ کورسز نہیں کرنے چاہئیں، میرا مطلب یہ ہے کہ یہ کورسز کافی نہیں ہیں۔ ہمیں بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ویب ڈیزائننگ کے بعد ویب ڈیویلمپنٹ میں جانا چاہیے، اس سے آگے ویب ایپ ڈیویلپمنٹ ہے۔ گرافکس ڈیزائننگ کو پروفیشنل لیول تک لے جانا چاہیے۔ آج کل اسمارٹ فونز کا زمانہ ہے، اس لیے اینڈرائڈ اور آئی او ایس ایپ ایپ ڈیویلپمنٹ کی طرف آنا چاہیے۔ تھری ڈی ماڈلنگ سیکھنی چاہیے، اس سے ہم اسلامک اینیمیشنز بھی بناسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی بھی کمپیوٹر فن میں مہارت حاصل کرکے اس کا کورس بناکر آنلائن فروخت کرسکتے ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو آج کی مارکیٹ میں بھی بِکتی ہیں۔ اس لیے مدارس کے طلبہ کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔
یاد رہے یہاں میں ان ساتھیوں کی بات کررہا ہوں جو مدارس میں تدریس یا مساجد میں امامت وخطابت کو ذریعۂ معاش نہیں بنانا چاہتے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی ساتھی کمپیوٹر سائنس میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر اسے کمپیوٹر کی تاریخ، اس کی لینگویجز، ہارڈویئر سٹرکچر کو پڑھنا چاہیے۔ پھر سوفٹویئر ڈیویلپمنٹ سیکھنا چاہیے۔ ایسے ساتھی کمپیوٹر میں تصنیف وتالیف کے شعبے کو بھی اپنا سکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
اپنا تبصرہ یہاں تحریر کیجیے۔