السلام علیکم!
یہ پوسٹ میرے ہم مشرب ساتھیوں یعنی ٹھیٹھ طالب جانوں کے لیے ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو دو ہم درس طلبہ آپس میں مل بیٹھ کر کرتے ہیں، اس پوسٹ کو اسی طرح پڑھیے گا۔ یہ مشورہ نہیں ہے، کیونکہ بہتر مشورہ ہمارے اساتذہ دے سکتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں اپنے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ اس سے زیادہ سنجیدگی سے اسے مت لیں :)۔
مدارس کے طلبہ کو چھٹیوں میں کونسی مصروفیات رکھنی چاہئیں؟
یہ وہ سوال ہے جو عموماً طلبہ اپنے اساتذہ اور ساتھیوں سے پوچھتے ہیں۔ میں بھی اس بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گر قبول افتد، زہے عز وشرف۔
تمہید کے طور پر عرض کروں کہ مدرسہ کے طلبہ پورا سال کتابوں، مطالعہ، تکرار اور ابحاث میں وقت گذارتے ہیں۔ شروع کی کلاسوں کے طلبہ کے لیے کافی کام ہوتا ہے، اور آخری درجات کے طلبہ عموماً مطالعہ وتحقیق میں وقت صرف کرتے ہیں، اور تھوڑے فرق کے ساتھ یہی مصروفیات سال بھر رہتی ہیں۔ جو کہ بہت اطمینان افزا بات ہے۔ اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ ایک ہی کام مسلسل کرے تو اکتا جاتا ہے، اس وجہ سے وفاق المدارس اور دیگر تمام وفاق بھی اپنے طلبہ کو ہر سال قریباً دو مہینے (شعبان، رمضان، اور شوال کے کچھ ایام) چھٹیاں دیتے ہیں۔
اب جب چھٹیاں آتی ہیں تو چھٹیوں میں بھی وہ مصروفیات اپنائی جاتی ہیں جو عام طور پر علمی ہی ہوتی ہیں۔ مثلاً دورۂ صرف ونحو (عربی گرامر شارٹ کورس) کیا جاتا ہے، اور دورۂ تفسیر وغیرہ میں شریک ہوا جاتا ہے۔ چھٹیوں میں تعلیمی مصروفیات کو جاری رکھنا اچھی بات ہے، لیکن مسئلہ یہ کہ طلبہ یہی کام سارا سال واسطہ بالواسطہ طور پر کررہے ہوتے ہیں۔ چھٹیوں میں یہی کام دوبارہ نہیں کرنا چاہیے۔ انسان کی طبعیت تنوع کو پسند کرتی ہے تو چھٹیاں کچھ نیا کرنے میں گذارنا چاہیے، کچھ ہلکا پھلکا کام کرنا چاہیے جس سے طبیعت پر بوجھ نہ پڑے اور 2 مہینوں کی مدت میں طبیعت میں بشاشت لوٹ آئے۔ چونکہ درسِ نظامی کا ہر سال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے چھٹیوں میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سالِ گذشتہ کی تھکاوٹ اتار کر اگلے سال کے لیے تیار ہوا جائے، نہ یہ کہ طالب علم چھٹیاں ایسی چیزوں میں گذار دے جس سے اگلے سال تعلیمی سال کے لیے وہ ذہنی طور پر مکمل تیار نہ ہو، اور سال کی شروعات ہی تھکے ہوئے ذہن کے ساتھ کرے تو آپ جانتے ہیں کہ تعلیمی سال کا ستیا ناس ہوجائے گا۔
اگلی چند پوسٹوں میں اپنے ساتھیوں سے وہ باتیں کی جائیں گی جن میں ممکن ہے کچھ ساتھی دلچسپی لیں۔ تو چلیے چلتے ہیں۔
اس بارے میں اپنی رائے دینا مت بھولیے گا۔ بہت شکریہ۔
یہ پوسٹ میرے ہم مشرب ساتھیوں یعنی ٹھیٹھ طالب جانوں کے لیے ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو دو ہم درس طلبہ آپس میں مل بیٹھ کر کرتے ہیں، اس پوسٹ کو اسی طرح پڑھیے گا۔ یہ مشورہ نہیں ہے، کیونکہ بہتر مشورہ ہمارے اساتذہ دے سکتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں اپنے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ اس سے زیادہ سنجیدگی سے اسے مت لیں :)۔
مدارس کے طلبہ کو چھٹیوں میں کونسی مصروفیات رکھنی چاہئیں؟
یہ وہ سوال ہے جو عموماً طلبہ اپنے اساتذہ اور ساتھیوں سے پوچھتے ہیں۔ میں بھی اس بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گر قبول افتد، زہے عز وشرف۔
تمہید کے طور پر عرض کروں کہ مدرسہ کے طلبہ پورا سال کتابوں، مطالعہ، تکرار اور ابحاث میں وقت گذارتے ہیں۔ شروع کی کلاسوں کے طلبہ کے لیے کافی کام ہوتا ہے، اور آخری درجات کے طلبہ عموماً مطالعہ وتحقیق میں وقت صرف کرتے ہیں، اور تھوڑے فرق کے ساتھ یہی مصروفیات سال بھر رہتی ہیں۔ جو کہ بہت اطمینان افزا بات ہے۔ اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ ایک ہی کام مسلسل کرے تو اکتا جاتا ہے، اس وجہ سے وفاق المدارس اور دیگر تمام وفاق بھی اپنے طلبہ کو ہر سال قریباً دو مہینے (شعبان، رمضان، اور شوال کے کچھ ایام) چھٹیاں دیتے ہیں۔
اب جب چھٹیاں آتی ہیں تو چھٹیوں میں بھی وہ مصروفیات اپنائی جاتی ہیں جو عام طور پر علمی ہی ہوتی ہیں۔ مثلاً دورۂ صرف ونحو (عربی گرامر شارٹ کورس) کیا جاتا ہے، اور دورۂ تفسیر وغیرہ میں شریک ہوا جاتا ہے۔ چھٹیوں میں تعلیمی مصروفیات کو جاری رکھنا اچھی بات ہے، لیکن مسئلہ یہ کہ طلبہ یہی کام سارا سال واسطہ بالواسطہ طور پر کررہے ہوتے ہیں۔ چھٹیوں میں یہی کام دوبارہ نہیں کرنا چاہیے۔ انسان کی طبعیت تنوع کو پسند کرتی ہے تو چھٹیاں کچھ نیا کرنے میں گذارنا چاہیے، کچھ ہلکا پھلکا کام کرنا چاہیے جس سے طبیعت پر بوجھ نہ پڑے اور 2 مہینوں کی مدت میں طبیعت میں بشاشت لوٹ آئے۔ چونکہ درسِ نظامی کا ہر سال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے چھٹیوں میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ سالِ گذشتہ کی تھکاوٹ اتار کر اگلے سال کے لیے تیار ہوا جائے، نہ یہ کہ طالب علم چھٹیاں ایسی چیزوں میں گذار دے جس سے اگلے سال تعلیمی سال کے لیے وہ ذہنی طور پر مکمل تیار نہ ہو، اور سال کی شروعات ہی تھکے ہوئے ذہن کے ساتھ کرے تو آپ جانتے ہیں کہ تعلیمی سال کا ستیا ناس ہوجائے گا۔
اگلی چند پوسٹوں میں اپنے ساتھیوں سے وہ باتیں کی جائیں گی جن میں ممکن ہے کچھ ساتھی دلچسپی لیں۔ تو چلیے چلتے ہیں۔
اس بارے میں اپنی رائے دینا مت بھولیے گا۔ بہت شکریہ۔
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںمیرا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے کہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے
جواب دیںحذف کریںویسے ہمارے دورہ حدیث کے ایک استاذ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ طلباء کو چھٹیوں میں کوئی کام سیکھنا چاہیے
مثلا رکشہ چلانا ، ٹھیلا لگانا تاکہ مستقبل کے لیے کوئی تو ہنر ہاتھ میں ہو کیونکہ ظاہر ہے کہ ہر کسی کو فراغت کے فورا بعد تو تدریس نہیں ملتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر والے جو بڑی محنت سے آپ کو پڑھاتے ہیں ان کی بھی کچھ توقعات آپ کی فراغت سے وابستہ ہوتی ہیں
اور میرا ذاتی تجربہ بھی استاذ محترم کی بات کی گواہی دیتا ہے