پچھلی ایک پوسٹ میں یہ تذکرہ کیا گیا تھا کہ مدارس کے طلبہ عام طور پر سالانہ چھٹیوں میں کیا کرتے ہیں، اور ایک پوسٹ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ طلبہ ان چھٹیوں میں کیا کیا کرسکتے ہیں۔ اب وعدہ کے مطابق اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔
سالانہ چھٹیوں میں کوئی دوسری زبان سیکھنا ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ ہمارا اصل مقصد ذہنی طور پر تازہ ہونا ہے، اس لیے نئی زبان سیکھنا آپ کو بالکل ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ نئی زبان سیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ ہونا چاہیے نہ کہ منطق جیسا خشک فن پڑھنے جیسا کام ہو۔ یہ سمجھیں کہ عربی چونکہ ہم کئی سال پڑھتے ہیں اس لیے اس کو بطورِ زبان سیکھنا مفید نہیں۔ یہ سوچ منفی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہم عربی کو بطور زبان نہیں پڑھتے، بلکہ ہمارا مقصد دین کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے، اس ضمن میں اگر ہم عربی ادب بھی پڑھ رہے ہوں تو ہمارا اصل مقصد دین کی اچھی سمجھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے عربی پر ہمارا بطور ایک زبان کے فوکس نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے عالم ہوں گے، کتاب فہم کمال کے ہوں گے، فہمِ قرآن، فہمِ حدیث، اور فقہ کی سمجھ میں خوب مہارت ہوگی، لیکن عربی نہیں بول پاتے ہوں گے۔ بعض احباب سمجھتے ہیں کہ درسِ نظامی پڑھ کر ایک طالب علم عربی بول سکتا ہے۔ ہاں ایسا طالب علم عربی بول تو لیتا ہے، درحقیقت وہ عربی نہیں ہوتی، اور لائیو اردو سے عربی ترجمہ کررہا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے، أکلت طعام العشاء کہنا۔ کیا اس کی جگہ تعشّیت زیادہ بہتر نہیں ہوگا۔
اس لیے دین کی سمجھ حاصل کرنے کے لیے عربی زبان سیکھنا ایک الگ چیز ہے اور عربی کو بطور زبان سیکھنا ایک الگ چیز۔ اس لیے عربی کو زبان کے طور پر بولنا بھی سیکھنا چاہیے۔ اگر عربی کو بطور زبان سیکھ لیا جائے تو اس سے عبارت پڑھنے میں بھی بہت حد تک آسانی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جب آپ کسی زبان سے مناسب طور پر شناسا ہوجائیں تو پھر آپ وہ زبان پڑھتے وقت قواعد اور صرف ونحو کی طرف نہیں جاتے، لیکن آپ صحیح پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے بولنے کی مشق کار فرما ہوتی ہے۔
اس لیے معاشی میدان میں بہتری کے لیے بھی اس زبان کو سیکھا جائے۔
اگر کوئی طالب علم سنجیدہ ہو تو انگریزی زبان کو سیکھنے کے لیے 4-6 مہینے کافی ہیں۔ اولیٰ اور ثانیہ پڑھ کر طالبعلم عربی گرامر سے اچھی طرح واقف ہوجاتا ہے، اور میرے خیال میں جو شخص عربی گرامر پڑھ اور سمجھ لے، وہ کوئی بھی زبان پڑھ اور سیکھ سکتا ہے۔ عربی گرامر جیسی پیچیدگی شاید کسی زبان میں ہو۔
انگریزی سیکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو طلبہ عصری علوم کے امتحانات میں بیٹھنا چاہتے ہیں ان کو انگریزی سبجیکٹ سے کوئی مشکل نہ ہو۔ اب تک تو طلبہ آرٹس پڑھتے تھے، لیکن اب مدارس کے لیے طلبہ کامرس کی طرف بھی آنے لگے ہیں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے۔ مدارس کے طلبہ کو سائنس پڑھنا بہت وجہ سے ہوجاتی ہے۔ لیکن بہت سے طلبہ فراغت کے بعد بھی کمپیوٹر اور میڈیکل میں سائنس میں پڑھ کر نام کما چکے ہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طلبہ کرام فراغت کے بعد جب امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیں گے تو ظاہر ہے ان کا واسطہ عوام سے پڑے گا، اور یاد رکھیں کہ عوام کے لیے علماء کی اردو سمجھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ علماء علمی اردو بولتے ہیں۔ اس لیے خطابت اور درسِ قرآن میں آسان اردو کے ساتھ ہلکی پھلکی انگریزی کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے اپنے طلبہ ساتھیوں کی رائے درکار ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے دوبارہ تشریف لائیے گا۔
والسلام
عربی بطور زبان سیکھیں
سالانہ چھٹیوں میں کوئی دوسری زبان سیکھنا ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ ہمارا اصل مقصد ذہنی طور پر تازہ ہونا ہے، اس لیے نئی زبان سیکھنا آپ کو بالکل ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ نئی زبان سیکھنا ایک دلچسپ مشغلہ ہونا چاہیے نہ کہ منطق جیسا خشک فن پڑھنے جیسا کام ہو۔ یہ سمجھیں کہ عربی چونکہ ہم کئی سال پڑھتے ہیں اس لیے اس کو بطورِ زبان سیکھنا مفید نہیں۔ یہ سوچ منفی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہم عربی کو بطور زبان نہیں پڑھتے، بلکہ ہمارا مقصد دین کا علم حاصل کرنا ہوتا ہے، اس ضمن میں اگر ہم عربی ادب بھی پڑھ رہے ہوں تو ہمارا اصل مقصد دین کی اچھی سمجھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے عربی پر ہمارا بطور ایک زبان کے فوکس نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے عالم ہوں گے، کتاب فہم کمال کے ہوں گے، فہمِ قرآن، فہمِ حدیث، اور فقہ کی سمجھ میں خوب مہارت ہوگی، لیکن عربی نہیں بول پاتے ہوں گے۔ بعض احباب سمجھتے ہیں کہ درسِ نظامی پڑھ کر ایک طالب علم عربی بول سکتا ہے۔ ہاں ایسا طالب علم عربی بول تو لیتا ہے، درحقیقت وہ عربی نہیں ہوتی، اور لائیو اردو سے عربی ترجمہ کررہا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے، أکلت طعام العشاء کہنا۔ کیا اس کی جگہ تعشّیت زیادہ بہتر نہیں ہوگا۔اس لیے دین کی سمجھ حاصل کرنے کے لیے عربی زبان سیکھنا ایک الگ چیز ہے اور عربی کو بطور زبان سیکھنا ایک الگ چیز۔ اس لیے عربی کو زبان کے طور پر بولنا بھی سیکھنا چاہیے۔ اگر عربی کو بطور زبان سیکھ لیا جائے تو اس سے عبارت پڑھنے میں بھی بہت حد تک آسانی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جب آپ کسی زبان سے مناسب طور پر شناسا ہوجائیں تو پھر آپ وہ زبان پڑھتے وقت قواعد اور صرف ونحو کی طرف نہیں جاتے، لیکن آپ صحیح پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے بولنے کی مشق کار فرما ہوتی ہے۔
انگریزی بطور زبان سیکھیں
انگریزی زبان کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ یہ عالمی زبان ہے، دوسرے اس وجہ سے کہ اس زبان کی سے مغربی علوم بہت حد تک دسترس میں آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اس وقت علماء کرام اس ضرورت کو سمجھ رہے ہیں اور اساتذہ کرام طلبہ کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اس لیے سالانہ چھٹیوں میں انگریزی زبان سیکھنا چھٹیوں کا ایک اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔ انگریزی کو دونوں طرح سیکھنے کی ضرورت ہے، اس کا لٹریچر پڑھنا چاہیے اور ساتھ میں بطور زبان بولنے کی مشق بھی کرنا چاہیے۔ تعلیمی سال کے دوران انگریزی ادب ہلکا پھلکا مطالعہ مفید ثابت ہوگا اور چھٹیوں میں بول چال کے لیے کلاسز لینا بہت اچھا رہے گا۔ بہت سے طلبہ فراغت کے بعد جب عملی میدان میں آتے ہیں اور مختلف تدریسی جابز کے لیے کوئی ٹیسٹ یا انٹرویوز دیتے ہیں تو عموماً انگریزی/کمزور ہونے یا نہ بالکل ناواقف ہونے کی وجہ سے یہ جابز حاصل نہیں کرپاتے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ جابز بھی یا تو عربی، اسلامیات اور امامت وخطابت کی ہوتی ہیں۔ بات یہ نہیں ہے کہ یہ علماء کرام اپنے فن میں ماہر نہیں ہوتے، یہ اپنے فن میں ماہر تو ہوتے ہیں لیکن اپنے فن کو اس زمانے کے انداز وبیان میں پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔اس لیے معاشی میدان میں بہتری کے لیے بھی اس زبان کو سیکھا جائے۔
اگر کوئی طالب علم سنجیدہ ہو تو انگریزی زبان کو سیکھنے کے لیے 4-6 مہینے کافی ہیں۔ اولیٰ اور ثانیہ پڑھ کر طالبعلم عربی گرامر سے اچھی طرح واقف ہوجاتا ہے، اور میرے خیال میں جو شخص عربی گرامر پڑھ اور سمجھ لے، وہ کوئی بھی زبان پڑھ اور سیکھ سکتا ہے۔ عربی گرامر جیسی پیچیدگی شاید کسی زبان میں ہو۔
انگریزی سیکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو طلبہ عصری علوم کے امتحانات میں بیٹھنا چاہتے ہیں ان کو انگریزی سبجیکٹ سے کوئی مشکل نہ ہو۔ اب تک تو طلبہ آرٹس پڑھتے تھے، لیکن اب مدارس کے لیے طلبہ کامرس کی طرف بھی آنے لگے ہیں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے۔ مدارس کے طلبہ کو سائنس پڑھنا بہت وجہ سے ہوجاتی ہے۔ لیکن بہت سے طلبہ فراغت کے بعد بھی کمپیوٹر اور میڈیکل میں سائنس میں پڑھ کر نام کما چکے ہیں۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طلبہ کرام فراغت کے بعد جب امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیں گے تو ظاہر ہے ان کا واسطہ عوام سے پڑے گا، اور یاد رکھیں کہ عوام کے لیے علماء کی اردو سمجھنا بہت مشکل ہے، کیونکہ علماء علمی اردو بولتے ہیں۔ اس لیے خطابت اور درسِ قرآن میں آسان اردو کے ساتھ ہلکی پھلکی انگریزی کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے اپنے طلبہ ساتھیوں کی رائے درکار ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے دوبارہ تشریف لائیے گا۔
والسلام
ماشاء اللہ بہت اچھی باتیں کی ہیں آپ نے
جواب دیںحذف کریںاگلی پوسٹ میں اس بارے میں راہنمائی فرمادیں کہ یہ عربی اور انگریزی بطور زبان کیسے سیکھی جا سکتی ہے؟
ان کو سیکھنے کے کیا کیا ذرائع ہیں؟
شکریہ، سعد بھائی۔
حذف کریں