نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

معمولی آدمی

دروازہ بہت زور سے بج رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ”معمولی آدمی“آچکا ہے۔ میں بڑی مشکل سے اٹھا، کھانستا گرتا پڑتا دروازے تک پہنچا اور کنڈی گرادی۔
السلام علیکم --- وعلیکم السلام
باہر ”معمولی آدمی“ ہی تھا۔ اس نے تکلیف کے لیے معذرت چاہی۔ اندر آیا اور بستر تک جانے میں مجھے سہارا دیا۔ کھانا کھلایا، دوائیں دیں ، کچھ دیر باتیں کیں پھر مجھ سے اجازت لے کر اپنے گھر چلا گیا جہاں اس کی فرمانبردار بیو ی اور دو معصوم بچے اس کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
مجھے ابھی تک اس کا نام نہیں معلوم۔۔۔ گھنٹوں اس کو سوچتا رہتا ہوں۔۔۔ لیکن بے سود۔۔۔ اس سے پوچھتا ہوں تو کہتا ہے کہ وہ صرف ایک ”معمولی آدمی“ ہے۔

میں پیشے کے اعتبار سے استاد تھا۔ میرا شمار محنتی اور سخت مزاج اساتذہ میں ہوتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ اپنے طلبہ کی صلاحتیں ممکن حد تک نکھار دوں۔ اور اس کے لیے پوری کوشش بھی کرتا تھا۔
میں ہی کیا۔۔۔؟ ہر استاد اور ہر تعلیمی ادارہ ذہین اور غیر معمولی استعداد والے طلبہ کو اہمیت دیتا ہے۔ ایسے طلبہ جو آپ کو شہرت اورپیسہ دے سکیں اور جن کی قابلیت پر آپ کو فخر کرسکیں، جن کا نام آپ مجمع میں لینا پسند کریں اور آپ لوگوں کو فخر سے بتاسکیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا ہے۔

اچھی طرح یاد نہیں، پر یہ قریباً 30 سال پرانی بات لگتی ہے، وہ میری انگریزی کی کلاس کا طالبعلم تھا۔ عام سا، متوسط ذہن کا اور شرمیلا۔
اساتذہ اپنی کلاس کے ذہین ترین یا پھر بہت ہی کند ذہن طلبہ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ لیکن اوسط استعداد والوں کو یاد رکھنا تھوڑا مشکل ہے۔خصوصاً وہ لڑکے جو آخر ی لائنوں میں بیٹھتے ہیں، ہمیشہ خاموش رہنا، تھوڑے سے شرمیلے، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پچھے رہنا ان کی عادت ہوتی ہے۔اس کا شمار بھی انہی جیسے لڑکوں میں ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے اسے کہا تھا کہ ”تم صرف ایک عام لڑکے ہو، کوئی تمہارے بارے میں جاننا بھی نہیں چاہے گا۔ تمہارا نام پوچھنا اور بات کرنا تو در کِنار، دیکھنا بھی گوارا نہیں کرے گا۔“
پراس نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس کا ردّ عمل اکثر ایسے ہی ہوا کرتا تھا۔

دوران ِتدریس اور ریٹائر منٹ کے بعد بھی میں ہمیشہ اس بات پر فخر کرتا رہا کہ اس علاقے کے آدھے سے زیادہ ڈاکٹرز، بیورو کریٹس اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ میرے شاگرد ہیں۔

میرے دو بیٹے ہیں۔ دونوں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کبھی اکیلے اور بیمار باپ کو پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بیوی کا چھ سال پہلے انتقال ہوگیا ہے۔ اب میں ہوں، یہ گھر ہے، یادیں ہیں، اور تنہائیاں ہیں۔۔۔

ایک رات عجیب واقعہ ہوا، کوئی زور سے مسلسل دروازہ بجا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے میں اٹھا، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک نوجوان لگ بھگ 30/35 کا باہر کھڑا ہے۔ اس نے اپنا تعارف ”معمولی آدمی “کے نام سے کروایا۔ میں نے ذہن پر زور دیا، لیکن کچھ یاد نہ آیا۔ نام سوجھ نہ سکا، لیکن اتنا پہچان لیا کہ میرا کوئی شاگرد ہے۔اس نے بھی نام بتانا پسند نہ کیا۔ کہتا تھا، مجھے معمولی آدمی ہونے پر فخر ہے۔ایک چھوٹی سی دکان کا مالک ۔۔۔ اس کے بعد وہ ہرروز آنے لگا۔ مجھے کھانا کھلاتا، دوائی لینے کو کہتا، گھر کی صفائی کرتا، دیر تک باتیں کرتا رہتا، پھر اجازت لے کر چلا جاتا۔
کچھ دنوں سے اس کا اصرار ہے کہ میں یہ مکان چھوڑ کر اس کے پاس رہوں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی بیوی اور بچے میری خدمت کرکے خوشی محسوس کریں گے۔ میں بھی سوچ رہا ہوں کہ اس کے ساتھ چلا جاؤں۔
اب، جب کہ میں عمر کے آخری حصے میں ہوں۔میری زندگی نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ سو لڑکوں کی کلاس میں 50 ایسے ہوتے ہیں جو میدان مارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دوسرے آدھے بھی زندگی میں کہیں نہ کہیں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ البتہ1 یا 2 لڑکے ایسے ہوتے ہیں جو ”معمولی“ ہوتے ہیں۔ یہ صرف اچھے کام کرتے ہیں۔ دکھاوا جن کا مقصد نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے یہ آپ کو شہرت اورپیسہ نہ دے سکیں، آپ کا نام روشن نہ کریں۔ ۔۔لیکن یہ سچ ہے کہ یہ آپ کو روحانی سکون پہنچاتے ہیں۔۔۔ خاص طور پر اس وقت ۔۔۔ جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی اصل ”طالب علم“ اوربھروسے لائق ہیں۔ انہی کی وجہ سے دنیا ۔۔۔۔محبت، ۔۔۔۔عزت ۔۔۔۔اور اعتماد---جیسےالفاظ سے واقف ہے۔

2007 کی ایک تحریر، یہ تحریر دراصل دی ٹرتھ میگزین کی ایک سٹوری کا ترجمہ ہے۔ کمپیوٹر کی فائلیں کنگھالتے ہوئے ہاتھ لگی۔ کچھ تبدیلی کے بعد پیش کی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مکتبۂ شاملہ نیا ورژن 100 جی بی (76 جی بی ڈاؤنلوڈ)

مکتبۂ شاملہ کے تعارف بارے میں لکھ چکا ہوں کہ مکتبۂ شاملہ کیا ہے۔ اس کے نسخۂ مفرغہ (App-only) کے بارے میں بھی بات ہوچکی ہے، اور نسخۂ وقفیہ پر بھی پوسٹ آچکی ہے۔ عموماً سادہ شاملہ 15 جی بی کا ہوتا ہے جس میں 6000 کے لگ بھگ کتابیں ہوتی ہیں جو ٹیکسٹ شکل میں ہوتی ہیں۔ مدینہ منوّرہ کے کچھ ساتھیوں نے اس کا نسخۂ وقفیہ ترتیب دیا، جس کا سائز تقریباً 72 جی بی تھا۔ ابھی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نسخۂ وقفیہ کا 100 جی بی والا ورژن بھی آچکا ہے۔ جس میں نئی کتابیں شامل کی گئی ہیں، اور کئی بگز کو بھی دور کیا گیا ہے۔ ڈاؤنلوڈ سائز 76 جی بی ہے، اور جب آپ ایکسٹریکٹ کرلیں گے تو تقریباً 100 جی بی کا ڈیٹا نکلے گا۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات میں کی گئی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مکمل درسِ نظامی کتب مع شروحات وکتبِ لغۃ اور بہت کچھ۔ صرف 12 جی بی میں

تعارف ”درسِ نظامی“ہند وپاک کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔کتابوں کے اس مجموعے کے اندر درسِ نظامی کے مکمل 8 درجات کی کتابیں اور ان کی شروح کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مجموعہ کس نے ترتیب دیا ہے، معلوم نہیں اور اندازے سے معلوم یہ ہوتا ہے یہ ابھی تک انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں۔ اور پاکستان (یا شاید کراچی)میں ”ہارڈ ڈسک بہ ہارڈ ڈسک“ منتقل ہوتا رہا ہے۔بندہ کو یہ مجموعہ ملا تو اس کا سائز قریباً 22 جی بی تھا۔ تو اسے چھوٹا کرنا اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا مناسب معلوم ہوا کہ دیگر احباب کو بھی استفادہ میں سہولت ہو، مستقبل کے لیے بھی ایک طرح سے محفوظ ہوجائے۔یہ سوچ کر کام شروع کردیا۔ اسے چھوٹا کرنے، زپ کرنے اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے میں قریباً ایک مہینہ کا عرصہ لگا ہے۔ اور کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سائز 11.8 جی بی یعنی پہلے سے تقریباً نصف ہے۔ اس سے مزید چھوٹا کرنے پر صفحات کا معیار خراب ہونے کا خدشہ تھا، تو نہ کیا۔ جن احباب نے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ سے خود اپنے اور سب کے لیے توفیقِ عمل کی دعا کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کرنے کی

مختلف سوفٹویئرز میں عربی کے مخصوص حروف کیسے لکھیں؟

کمپیوٹر میں یونیکوڈ اردو ٹائپ کرنے لیے مختلف کی بورڈز دستیاب ہیں۔ بندہ چونکہ پہلے انپیج میں ٹائپنگ سیکھ چکا تھا، لہٰذا یونیکوڈ کے آنے پر خواہش تھی کہ ایسا کی بورڈ مل جائے جو ان پیج کی بورڈ کے قریب قریب ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ایک کی بورڈ ملا، میری رائے کے مطابق یہ ان پیج کے کی بورڈ سے قریب تر ہے۔ اب جو ساتھی نئے سیکھنے والے ہیں، ان کو کون سا کی بورڈ سیکھنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ میری رائے طلبۂ مدارس کے لیے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عربی کی بورڈ نہ سیکھیں، کیونکہ عربی کی بورڈ کو اردو اور انگریزی کی بورڈز کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے، کیونکہ احباب جانتے ہیں کہ ان پیج کا فونیٹک کی بورڈ ملتے جلتے انگریزی حروف پر ترتیب دیا گیا ہے۔ مثلاً ”p“ پر آپ کو ”‬پ“ ملے گا۔ اس طرح حروف کو یاد رکھنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو آدمی اردو سیکھ لے وہ تھوڑی سی مشق سے انگریزی ٹائپنگ کرسکتا ہے، اور انگریزی ٹائپنگ سیکھا ہوا شخص کچھ توجہ سے اردو بھی ٹائپ کرلیتا ہے۔ اور عربی کے تقریباً سارے ہی حروف اردو میں موجود ہیں، تو الگ سے کیوں نیا کی بورڈ سیکھا جائے۔ کئی کی بورڈز پر توجہ دینے کے بجائے بہتر یہ ہے ایک ہی ک