نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ابو دجانہ (اصغر شاہ) کے ساتھ ایک شام

ب: السلام علیکم!

ع: وعلیکم السلام! کیسے ہیں؟

ب: کرم ہے اللہ کا، آپ سنائیں!

ع: سب ٹھیک ہے، اللہ کا شکر!

ب: کہاں ہیں اس وقت!

ع: معذرت چاہتا ہوں، دن کو آپ کا فون نہیں اٹھا سکا، کچھ مصروف تھا، اور ابھی بِن بتائے آپ ہی طرف آرہا ہوں۔

ب: بہت خوشی کی بات ہے، میں انتظار کررہا ہوں۔

ع: شکریہ،

السلام علیکم/وعلیکم السلام

یہ وہ گفتگو تھی جو میرے اور ابو دجانہ کے بیچ فون پر ہوئی۔ ابودجانہ کچھ عرصہ پہلے تک میرے ایک دوست کے استادتھے اور ان دوست صاحب کے ذریعہ ہی غائبانہ تعارف تھا، مجھے اپنے دوست کا گھر معلوم تھا، تو سوچا کہ دوست سے جاکر ملوں گا اور اسی بہانے ان سے ملاقات ہوجائے گی اور کچھ الگ مزہ آئے گا، لیکن شاید انہیں خبر ہوچکی تھی اس لیے انہوں رابطہ کرلیا اور ہم پکڑے گئے۔

ابو دجانہ (اصغر شاہ) مومن گزشتہ عید پر دو سال بعد کچھ عرصہ کے لیے پاکستان آئے تھے، اور اس عرصہ میں مجھے ان سے ملاقات کی تمنا تھی۔ کام سے فراغت کے بعد خیالات کے کینوَس پر، بودجانہ کی مختلف تصویریں بنانے میں مگن تھا۔ دل کہتا تھا کہ وہ ایسے ہوں گے، کبھی کہتا تھا کہ نہیں یار ویسے ہوں گے۔۔۔۔! ایک آواز آتی تھی، فارن گیا ہے تو ان میں رنگ گیا ہوگا، پھر سوچتا تھا کہ نئیں جانی! سب ایک سے نہیں ہوتے۔ گو! مَن ایک تھا، آوازیں دسیوں تھیں۔۔۔!سفر شروع ہوا ہی تھا کہ میں ان کا فون آگیا، تو سوچوں کی رفتار کچھ کم ہوئی۔

منزل کے قریب پہنچے ہی تھے کہ ایک شیریں آواز سماعت سے ٹکرائی، خِیرہ نظریں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو یقین نہیں کرپائے، ایک جدا تصویر جو میری سوچ کے ایک سو اسّی ڈگری برعکس تھی، میرے سامنے تھی۔ پہلے پہل تو سوچا غلط آدمی کے ساتھ تو علیک سلیک نہیں ہورہا، ایسا نہ ہو ”اٹھا“ لیے جائیں، لیکن سلام کی حِدت اور ہاتھوں کی گرمائش نے ہمیں سوچنے نہ دیا اور ہم ساتھ ہولیے۔ راستے میں مختصر تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ہی اصغر شاہ مومِن المعروف ابو دُجانہ ہیں، کچھ دیر بعد ہم گھُل مل گئے تھے۔ گھر پہنچے تو دوست صاحب ایک کونے میں دانت نکالے دکھائی دیئے، ان کے ساتھ مل ملاکر ادھر دیکھا تو وہ مُڑے چاہتے تھے،

ابودجانہ نے انہیں شریکِ محفل ہونے کو کہا تو عذر کرگئے، (دوست موصوف پشتون ہیں، اور ابو دجانہ جو کہ ان کے استاد ہیں، کا بہت احترام کرتے ہیں، ان کے سامنے ”جی، ہاں، نہیں“ کے علاوہ کچھ نہیں کہتے)، اس لیے عذر کرکے چل دئیے۔ اب ہم تھے اور ابو دجانہ بھائی۔ اس سے پہلے کہ دوست موصوف کے ”الجذبات الشاگردیہ“ میرے جسم میں حلول کرتے، بودجانہ بھائی نے دل کے ”حالات“ کو بھانپا اور فوراً دوستانہ انداز میں گفتگو شروع کردی، تو ہم میں جان آئی۔ گوکہ عمروں میں زیادہ تفاوت نہیں مگر وہ ہم سے بہت چھوٹے معلوم ہوتے ہیں۔ ہم بھاری بھرکم قسم کے انسان ہیں، اور وہ ماشاء اللہ پھرتیلے اور چاک و چوبند ورزشی جسم کے مالک ہیں۔ ان کو دیکھ کر جیکی چن یاد آگئے جن کی اٹکھیلیاں دیکھ کر ہم نے کئی بار ”پختہ“ عزم کیا تھا ، ہم نے ایک نیا عزم کرلیا کہ کل سے ایکسرسائز شروع کریں گے، اتنی رننگ، اتنے پش اپس، سِٹ اپس، پہلے ہفتے یہ ، پھر یہ اور اس سے اگلے ہفتے یہ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔!!!!

اللہ کا شکر ہے یہ خواب خیر سے آج تک پورا نہیں ہوا، اور ہم آج بھی اپنے جسم کے ساتھ کئی اضافی ”مہمان“ بھی رکھتے ہیں، جن سے ہمیں نفرت بہر حال بہت ہے۔

میری پشتو بس واجبی سی ہے سلام دعا کے بعد رسمی جملوں تک تو چہرے کے ایکسپریشنز ساتھ دیتے ہیں، بات آگے بڑھ جائے تو میری شکل اس باؤلر جیسی ہوجاتی ہے جو چھکا کھانے کے بعد گیند کی طرف للچاتے ہوئے دیکھتا ہے کہ ”دا می سہ اوکڑل۔۔!“ (یہ میں نے کیا کردیا۔۔۔!) ۔ اس لیے میں گپ شپ کے لیے پشتو کا سہارا نہیں لیتا، پتہ نہیں کب بندے کے پاس vocabulary ختم ہوجائے۔ اور یہ انگلش تو ہے نہیں بندہ well کہہ کر یا پھر ایک لمبے سے So سے کام چلا لے، اس لیے اردو سے شروعات کرنے میں ہی عافیت جانی۔

ہمارا ملاپ بڑی آپا یعنی محترمہ آئی ٹی ڈی کے ذریعہ ہوا تھا اس لیے آغازِ سخن بھی وہی قرار پائیں، مختلف افراد کے بارے میں قیاس آرائیاں کی گئیں۔ ایک دوسرے کے تھریڈز کے بارے میں الفاظ کا تبادلہ ہوا، اب جو باتیں شروع ہوئیں کہ نہ پوچھیں، کچھ دیر بعد میرے سوالات کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ان کا بچپن، لڑکپن، تدریسی زمانہ، مارشل آرٹس والی زندگی، اسٹائل اور مابعد کے ماردھاڑ والے تجربات۔۔۔! اور اب باہر دبئی میں جاب کے احوال، خانگی زندگی اور کالیگز، غرض کوئی ایسا موضوع نہ ہوگا، جو ہم نے نہ چھیڑا ہو۔ درمیان میں مجھے لگا بھی کہ بس کر یار کافی ہے، پھر سوچا ان کو برا نہیں لگ رہا تو کیا ۔۔۔! تُو کیری اون،۔۔۔۔۔۔ تو پھر اگلا سوال آجاتا کہ: مستقبل میں کیا ارادے ہیں۔۔۔؟ دبئی شفٹ ہوں گے ، یہاں یا آبائی گاؤں، بھائی کے لیے کیا پلاننگ ہے، ابو امی کیا چاہتے ہیں! وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

اس دوران اگر کھانا نہ آجاتا تو شاید ان کو ”غلط بندے دا ”پھون “ملان دا “ احساس ہوہی جاتا لیکن شکر ہے اس کی نوبت نہیں آئی۔کھانا بہت شاندار اور لذیذ تھا،ایک ڈش جو ابھی تک یاد ہے،چنے کی دال تھی، کمال کی ذائقہ دار تھی۔

یہ قارئین کے ذمہ ہے ، آپ فیصلہ کریں کہ جب ہمیں کھانے میں آدھے گھنٹے سے زیادہ ہی لگا ہوگا توہمارے بیچ کتنی خاموشی رہی ہوگی۔۔۔! کھانے کے بیچ بھی کئی موضوعات زیر بحث رہے۔ ایک خاص واقعہ انہوں نے مارشل آرٹ کے حوالے سے سنایا جس میں انہوں نے اکیلے کئی لڑکوں کی پٹائی کردی تھی، اس وقت ہم بھی ہیرو ازم feel کررہے تھے۔۔۔۔! مارنے میں نہیں۔۔۔۔۔! کھانے میں۔۔۔۔۔! کم کھانے والی یہ بات ابو دجانہ بھائی کی حد تک تو ٹھیک تھی، لیکن میری حالت غیر ہورہی تھی، اس کی وجہ بعد میں سمجھ آئی، کہ میں سوال کرکے کھانے میں مصروف رہتا اور بھائی محترم مجھے سمجھانے میں، پھر جواب سننے میں اتنا مگن ہوجاتا کہ مجھے خوراک کی زیادہ مقدار کے اندر جانے کا احساس ہی نہ ہوپاتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ ہم جسم کے لحاظ سے مہان واقع ہوئے اور پیٹ کے لحاظ سے تو نہ پوچھیے، اس لیے انہیں زیادہ محسوس نہ ہوا، اس دوران میرا زیادہ تاثر یہی تھا کہ ہمیں ان کے باتوں میں زیادہ دلچسپی ہے، جب کہ حقیقت شاید وہ خود بھی جانتے تھے ۔

یقین مانئے واپسی کا 2 کلو میٹر کا سفر مجھے خاص طورپر کھانے کو ہضم کرنے کے لیے پیدل طے کرنا پڑا، تب جان ہلکی ہوئی۔ خلاصہ یہ کہ کھانابہت ہی لذیذ تھا، لذیذ ہونا برحق تھا، اور جو چیز برحق پر ہو اسے انصاف ملنا چاہیے ۔ کھانے کے بعد قہوہ کی باری آئی، قہوہ پیتے ہوئے میری تو سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں، شاید CAPACITY ISSUE تھا۔ بہر طور یہ مرحلہ بھی اطمینان سے طے پاگیا۔ آخر میں پھلوں سے تواضع ہوئی، تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ”رات کو پھل نہیں کھاتا“ حالانکہ آپ جان چکے ہیں،کہ یہ capacity issue تھا۔

رات گہری ہورہی تھی، اس لیے میں نے اجازت چاہی اور یہ حسین یادیں لیے واپس ہوا۔ مجھے خوشی تھی میں نے جو سوچا تھا اس کے برعکس ایک اچھی تصویر مجھے ملی، ایسی تصویر جو اللہ کے رسول کے فرمودات کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کے گھر والوں کو حیاتِ جاوداں بخشے اور ہمیشہ ان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اس کہانی سے آپ کو میری بسیار خوری کا یقین ہوگیا ہوگا، لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ میں ان کی پیاری باتوں اور ایڈوینچر سے بھرپور زندگی میں اتنا مگن ہوگیا تھا کہ یہ حادثہ رونما ہوا ۔ خیر اب کہ بھائی واپس جاچکے ہیں، اسے چھیڑنے میں حرج نہیں۔۔۔ ایک بات بتانا بھول گیا، کہ اللہ کے فضل سے ابودجانہ بھائی ایک سے دو ہوگئے ہیں، یعنی ان کی باگ ڈور کسی ”اور“ کے ہاتھ میں آگئی ہے، اب وہ ”کسی“ کے لیے جیتے ہیں، آپ ان کے سگنیچر سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں اب اللہ تعالیٰ سے ان کے 2 سے 3 ہوجانے کی دعا کیجیے۔

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی

دل مانتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں!

تبصرے

  1. عطاء بھائی یہ وہی اپنے والے ابو دجانہ ہیں؟
    یہ کب کی روداد ہے؟
    واقعہ نگاری خوبصورتی سے نبھائی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی بھائی، یہ وہی ہیں۔
      یہ واقعہ تین سال پہلے کا ہے۔
      اب تو یہ شروعات گہری دوستی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ :)
      بلاگ میں تشریف آوری کا شکریہ

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنا تبصرہ یہاں تحریر کیجیے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مکتبۂ شاملہ نیا ورژن 100 جی بی (76 جی بی ڈاؤنلوڈ)

مکتبۂ شاملہ کے تعارف بارے میں لکھ چکا ہوں کہ مکتبۂ شاملہ کیا ہے۔ اس کے نسخۂ مفرغہ (App-only) کے بارے میں بھی بات ہوچکی ہے، اور نسخۂ وقفیہ پر بھی پوسٹ آچکی ہے۔ عموماً سادہ شاملہ 15 جی بی کا ہوتا ہے جس میں 6000 کے لگ بھگ کتابیں ہوتی ہیں جو ٹیکسٹ شکل میں ہوتی ہیں۔ مدینہ منوّرہ کے کچھ ساتھیوں نے اس کا نسخۂ وقفیہ ترتیب دیا، جس کا سائز تقریباً 72 جی بی تھا۔ ابھی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نسخۂ وقفیہ کا 100 جی بی والا ورژن بھی آچکا ہے۔ جس میں نئی کتابیں شامل کی گئی ہیں، اور کئی بگز کو بھی دور کیا گیا ہے۔ ڈاؤنلوڈ سائز 76 جی بی ہے، اور جب آپ ایکسٹریکٹ کرلیں گے تو تقریباً 100 جی بی کا ڈیٹا نکلے گا۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات میں کی گئی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مکمل درسِ نظامی کتب مع شروحات وکتبِ لغۃ اور بہت کچھ۔ صرف 12 جی بی میں

تعارف ”درسِ نظامی“ہند وپاک کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔کتابوں کے اس مجموعے کے اندر درسِ نظامی کے مکمل 8 درجات کی کتابیں اور ان کی شروح کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مجموعہ کس نے ترتیب دیا ہے، معلوم نہیں اور اندازے سے معلوم یہ ہوتا ہے یہ ابھی تک انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں۔ اور پاکستان (یا شاید کراچی)میں ”ہارڈ ڈسک بہ ہارڈ ڈسک“ منتقل ہوتا رہا ہے۔بندہ کو یہ مجموعہ ملا تو اس کا سائز قریباً 22 جی بی تھا۔ تو اسے چھوٹا کرنا اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا مناسب معلوم ہوا کہ دیگر احباب کو بھی استفادہ میں سہولت ہو، مستقبل کے لیے بھی ایک طرح سے محفوظ ہوجائے۔یہ سوچ کر کام شروع کردیا۔ اسے چھوٹا کرنے، زپ کرنے اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے میں قریباً ایک مہینہ کا عرصہ لگا ہے۔ اور کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سائز 11.8 جی بی یعنی پہلے سے تقریباً نصف ہے۔ اس سے مزید چھوٹا کرنے پر صفحات کا معیار خراب ہونے کا خدشہ تھا، تو نہ کیا۔ جن احباب نے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ سے خود اپنے اور سب کے لیے توفیقِ عمل کی دعا کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کرنے کی

مختلف سوفٹویئرز میں عربی کے مخصوص حروف کیسے لکھیں؟

کمپیوٹر میں یونیکوڈ اردو ٹائپ کرنے لیے مختلف کی بورڈز دستیاب ہیں۔ بندہ چونکہ پہلے انپیج میں ٹائپنگ سیکھ چکا تھا، لہٰذا یونیکوڈ کے آنے پر خواہش تھی کہ ایسا کی بورڈ مل جائے جو ان پیج کی بورڈ کے قریب قریب ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ایک کی بورڈ ملا، میری رائے کے مطابق یہ ان پیج کے کی بورڈ سے قریب تر ہے۔ اب جو ساتھی نئے سیکھنے والے ہیں، ان کو کون سا کی بورڈ سیکھنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ میری رائے طلبۂ مدارس کے لیے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عربی کی بورڈ نہ سیکھیں، کیونکہ عربی کی بورڈ کو اردو اور انگریزی کی بورڈز کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے، کیونکہ احباب جانتے ہیں کہ ان پیج کا فونیٹک کی بورڈ ملتے جلتے انگریزی حروف پر ترتیب دیا گیا ہے۔ مثلاً ”p“ پر آپ کو ”‬پ“ ملے گا۔ اس طرح حروف کو یاد رکھنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو آدمی اردو سیکھ لے وہ تھوڑی سی مشق سے انگریزی ٹائپنگ کرسکتا ہے، اور انگریزی ٹائپنگ سیکھا ہوا شخص کچھ توجہ سے اردو بھی ٹائپ کرلیتا ہے۔ اور عربی کے تقریباً سارے ہی حروف اردو میں موجود ہیں، تو الگ سے کیوں نیا کی بورڈ سیکھا جائے۔ کئی کی بورڈز پر توجہ دینے کے بجائے بہتر یہ ہے ایک ہی ک