نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دعوتِ دین کی تین اقسام

لفظ کو سننے کے بعد جو پہلی چیز ذہن میں آتی ہے وہ کھانے کی دعوت ہے، لیکن آج ہم جس دعوت کی بات کریں گے اس دعوت سے مراد اصطلاحی دعوت یعنی "دین کی دعوت" ہے۔

قرآنِ کریم میں دعوت کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں جسے ہم دوسرے لفظوں میں یوں کہیں گے کہ لوگوں کی دانش اور سمجھ کے مطابق طریقہ دعوت میں تبدیلی آئے گی۔

1۔ پہلے قسم کے لوگ عموما وہ ہوتے ہیں جنہیں دانشمند تصور کیا جاتا ہے جو بغیر دلیل کے بات کو مانتے نہیں۔ اور سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں دعوت یا گفتگو کے وقت دلیل دینی چاہئے۔

2۔ دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو متوسط سوچ کے مالک ہوتے ہیں، زیادہ بحث و مباحثہ نہیں کرتے۔ ان کو بات سمجھا دینا کافی ہوتا ہے۔انہیں دلیل نہ بھی دی جائے تو بات مان لیتے ہیں۔بعض اوقات نہیں بھی مانتے۔

3۔ جبکہ تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ہم ضدی اور ڈھیٹ کہیں گے، اگر ان سے کوئی بات کہی جائے تو ان کا رد عمل عموماً "کیوں؟" سے سامنے آتا ہے۔ان سےمناسب طریقے سے بحث و مباحثہ کرنے کو کہا گیا ہے اگر چہ غیر مسلم کیوں نہ ہوں۔ ان سے ایسی بات کہی جائے جس سے وہ لاجواب ہوجائیں۔

اب دعوتِ دین کو ان تین ذہنی اقسام کے تناظر میں دیکھتے ہیں:

1۔ اگر کسی غیر مسلم دانشور کو غیر اللہ کی عبادت نہ کرنے کو کہا جائے تو عموماً وہ دلیل مانگے گا کہ مجھے اللہ کی عبادت کیوں کرنی چاہئے۔جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ آتے تھے، اللہ کے وجود کے دلائل سن کر ایمان لے آتے تھے۔

2۔ متوسط ذہن کے افراد کی مثال قرآنِ کریم میں موجود ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا تھا کہ آپ ایسی چیز کی بندگی کیوں کرتے ہیں جو آپ کو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔۔۔آپ نے دلیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، نہ ہی مباحثہ کیا۔

3۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کو یہ کہنا کہ "اللہ تعالیٰ تو مشرق سے سورج کو نکال کر مغرب میں غروب کردیتا ہے۔ اب تم ذرا مغرب سے نکال کر دکھادو۔" ایک خاموش کردینے والا جواب ہے۔

یہ باتیں صرف دعوت ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہم روز مرہ زندگی میں بھی اسے لاگو کرسکتے ہیں۔ اللہ حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: یہ تحریر اس آیت کی روشنی میں لکھی گئی۔

تبصرے

  1. کیا دعوت کے طریقے کہنا درست ہوگا؟ یا اس کی تعبیر دوسرے طریقے پر ممکن ہے؟

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنا تبصرہ یہاں تحریر کیجیے۔

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مکتبۂ شاملہ نیا ورژن 100 جی بی (76 جی بی ڈاؤنلوڈ)

مکتبۂ شاملہ کے تعارف بارے میں لکھ چکا ہوں کہ مکتبۂ شاملہ کیا ہے۔ اس کے نسخۂ مفرغہ (App-only) کے بارے میں بھی بات ہوچکی ہے، اور نسخۂ وقفیہ پر بھی پوسٹ آچکی ہے۔ عموماً سادہ شاملہ 15 جی بی کا ہوتا ہے جس میں 6000 کے لگ بھگ کتابیں ہوتی ہیں جو ٹیکسٹ شکل میں ہوتی ہیں۔ مدینہ منوّرہ کے کچھ ساتھیوں نے اس کا نسخۂ وقفیہ ترتیب دیا، جس کا سائز تقریباً 72 جی بی تھا۔ ابھی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نسخۂ وقفیہ کا 100 جی بی والا ورژن بھی آچکا ہے۔ جس میں نئی کتابیں شامل کی گئی ہیں، اور کئی بگز کو بھی دور کیا گیا ہے۔ ڈاؤنلوڈ سائز 76 جی بی ہے، اور جب آپ ایکسٹریکٹ کرلیں گے تو تقریباً 100 جی بی کا ڈیٹا نکلے گا۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعات میں کی گئی دعاؤں میں یاد رکھیے۔

مکمل درسِ نظامی کتب مع شروحات وکتبِ لغۃ اور بہت کچھ۔ صرف 12 جی بی میں

تعارف ”درسِ نظامی“ہند وپاک کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔کتابوں کے اس مجموعے کے اندر درسِ نظامی کے مکمل 8 درجات کی کتابیں اور ان کی شروح کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مجموعہ کس نے ترتیب دیا ہے، معلوم نہیں اور اندازے سے معلوم یہ ہوتا ہے یہ ابھی تک انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں۔ اور پاکستان (یا شاید کراچی)میں ”ہارڈ ڈسک بہ ہارڈ ڈسک“ منتقل ہوتا رہا ہے۔بندہ کو یہ مجموعہ ملا تو اس کا سائز قریباً 22 جی بی تھا۔ تو اسے چھوٹا کرنا اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنا مناسب معلوم ہوا کہ دیگر احباب کو بھی استفادہ میں سہولت ہو، مستقبل کے لیے بھی ایک طرح سے محفوظ ہوجائے۔یہ سوچ کر کام شروع کردیا۔ اسے چھوٹا کرنے، زپ کرنے اور پھر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے میں قریباً ایک مہینہ کا عرصہ لگا ہے۔ اور کام سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سائز 11.8 جی بی یعنی پہلے سے تقریباً نصف ہے۔ اس سے مزید چھوٹا کرنے پر صفحات کا معیار خراب ہونے کا خدشہ تھا، تو نہ کیا۔ جن احباب نے یہ مجموعہ ترتیب دیا ہے ان کے لیے جزائے خیر کی دعا کرتے ہوئے، اور اللہ تعالیٰ سے خود اپنے اور سب کے لیے توفیقِ عمل کی دعا کرتے ہوئے آپ کے سامنے پیش کرنے کی

مختلف سوفٹویئرز میں عربی کے مخصوص حروف کیسے لکھیں؟

کمپیوٹر میں یونیکوڈ اردو ٹائپ کرنے لیے مختلف کی بورڈز دستیاب ہیں۔ بندہ چونکہ پہلے انپیج میں ٹائپنگ سیکھ چکا تھا، لہٰذا یونیکوڈ کے آنے پر خواہش تھی کہ ایسا کی بورڈ مل جائے جو ان پیج کی بورڈ کے قریب قریب ہو۔ کچھ تلاش کے بعد ایک کی بورڈ ملا، میری رائے کے مطابق یہ ان پیج کے کی بورڈ سے قریب تر ہے۔ اب جو ساتھی نئے سیکھنے والے ہیں، ان کو کون سا کی بورڈ سیکھنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ میری رائے طلبۂ مدارس کے لیے ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عربی کی بورڈ نہ سیکھیں، کیونکہ عربی کی بورڈ کو اردو اور انگریزی کی بورڈز کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے، کیونکہ احباب جانتے ہیں کہ ان پیج کا فونیٹک کی بورڈ ملتے جلتے انگریزی حروف پر ترتیب دیا گیا ہے۔ مثلاً ”p“ پر آپ کو ”‬پ“ ملے گا۔ اس طرح حروف کو یاد رکھنے میں سہولت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو آدمی اردو سیکھ لے وہ تھوڑی سی مشق سے انگریزی ٹائپنگ کرسکتا ہے، اور انگریزی ٹائپنگ سیکھا ہوا شخص کچھ توجہ سے اردو بھی ٹائپ کرلیتا ہے۔ اور عربی کے تقریباً سارے ہی حروف اردو میں موجود ہیں، تو الگ سے کیوں نیا کی بورڈ سیکھا جائے۔ کئی کی بورڈز پر توجہ دینے کے بجائے بہتر یہ ہے ایک ہی ک