نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اپریل, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ایسا کیوں ہوا؟

چھٹی والے دن شام کو دوستوں کے ساتھ کوئٹہ کاکڑ ہوٹل میں بیٹھ کر بات چیت اور جب ساتھ میں گرما گرم، لب ریز، لب سوز اور لب دوز چائے بھی ہو تو مجلس کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی غیر معمولی افسوسناک واقعہ پیش آجائے تو اس مزے کے کرکرے ہونے میں دیر نہیں لگتی، کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ابھی چائے کا آرڈر دے کر موضوعِ سخن سوچا ہی جارہا تھا کہ دفعۃً بریک لگنے کی آواز آئی، نظروں نے جو دیکھا ناقابلِ بیان ہے اور دل سوز بھی۔ بریک لگنے کی آواز ایک شہزور چکن سپلائر گاڑی کی تھی، خالی ڈربے آج کا کام پورا ہونے کی گواہی دے رہے تھے، عشاء کے بعد کا وقت تھا اور لانڈھی انڈسٹرئیل ایریا کی مصروف ترین شاہراہ، ایسے میں ایک شہزور کا بیچ روڈ میں روکنا کسی چیز پر دلالت کررہا تھا، غور سے دیکھا تو گاڑی کے آگے ایک موٹر سائیکل کھڑی نظر آئی، اس پر تین افراد سوار تھے، تینوں کی عمریں 20-25 کے درمیان تھیں، ان میں ایک نیچے اترا، اس کا ہاتھ کمر کی طرف سرکا، اگلا لمحہ دل ہلا دینے والا تھا، ہاتھ باہر آیا تو اس میں ایک گن تھی، اس نے آناً فاناً گن ڈرائیور پر تان دی، اور رقم کا تقاض

ہائے بجلی وائے بجلی

ہائے بجلی! ہائے بجلی! دو دو گھنٹے جائے بجلی ہائے بجلی، ہائے بجلی اس کے بنا ہے جینا مشکل بے چینی ہو ہر دم ہر پل کیوں ہم کو تڑپائے بجلی ہائے بجلی! ہائے بجلی! صبح، دوپہر اور شام کو جائے جب جائے واپس نہ آئے ہر شخص کو رلائے بجلی ہائے بجلی ! ہائے بجلی! چھوٹے بڑے، سب ہیں پریشان اس سے بچنا نہیں ہے آساں! عمر کا فرق مٹائے بجلی ہائے بجلی! ہائے بجلی! جب آئے تو الحمدللہ! جب جائے تو انّا للہ! اللہ یاد دلائے بجلی ہائے بجلی! ہائے بجلی! سب کی راج دُلاری ہوں میں! لیکن غم کی ماری ہوں میں! آتے جاتے گائے بجلی ہائے بجلی، وائے بجلی

دعوتِ دین کی تین اقسام

لفظ کو سننے کے بعد جو پہلی چیز ذہن میں آتی ہے وہ کھانے کی دعوت ہے، لیکن آج ہم جس دعوت کی بات کریں گے اس دعوت سے مراد اصطلاحی دعوت یعنی "دین کی دعوت" ہے۔ قرآنِ کریم میں دعوت کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں جسے ہم دوسرے لفظوں میں یوں کہیں گے کہ لوگوں کی دانش اور سمجھ کے مطابق طریقہ دعوت میں تبدیلی آئے گی۔ 1۔ پہلے قسم کے لوگ عموما وہ ہوتے ہیں جنہیں دانشمند تصور کیا جاتا ہے جو بغیر دلیل کے بات کو مانتے نہیں۔ اور سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں دعوت یا گفتگو کے وقت دلیل دینی چاہئے۔ 2۔ دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو متوسط سوچ کے مالک ہوتے ہیں، زیادہ بحث و مباحثہ نہیں کرتے۔ ان کو بات سمجھا دینا کافی ہوتا ہے۔انہیں دلیل نہ بھی دی جائے تو بات مان لیتے ہیں۔بعض اوقات نہیں بھی مانتے۔ 3۔ جبکہ تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ہم ضدی اور ڈھیٹ کہیں گے، اگر ان سے کوئی بات کہی جائے تو ان کا رد عمل عموماً "کیوں؟" سے سامنے آتا ہے۔ان سےمناسب طریقے سے بحث و مباحثہ کرنے کو کہا گیا ہے اگر چہ غیر مسلم کیوں نہ ہوں۔ ان سے ایسی بات کہی جائے جس سے وہ لاجواب ہوجائیں۔ اب دعوتِ دین ک